Maktaba Wahhabi

397 - 702
کہ و ہ امام کی آمین سن لیں ۔ پھر اس کی وضاحت ابن شہاب نے کی اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آمین کہتے تھے۔ میں نے شافعی سے کہا کہ میں امام کے لیے ناپسند کرتا ہوں کہ وہ آمین زور سے کہے۔تو انھوں نے جواب دیا: ہمارے اور تمھارے اصحاب کی اس روایت کے خلاف ہے، جو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے روایت کی ہے۔ اگر ہمارے پاس اور ان کے پاس اس حدیث کے علاوہ اور کوئی علم نہ ہوتا جس کا ذکر ہم نے مالک کے واسطے سے کیا ہے تو چاہیے کہ استدلال کیا جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آمین بالجہر کہتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امام کو حکم دیا ہے کہ وہ آمین بالجہر کہے۔ تو کیسے ممکن ہے جبکہ اہل علم اسی پر قائم ہیں اور وائل بن حجر نے روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آمین کہتے ہوئے اپنی آواز بلند کرتے تھے۔ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو لمبا کیا تھا اور ابوہریرہ امام سے کہا کرتے تھے کہ آمین کہنے میں مجھ سے سبقت نہ کرو اور وہ ان کے لیے اذان دیا کرتے تھے۔ ہمیں بتایا مسلم بن خالد نے ابن خریج کے واسطے سے اور وہ عطا کے واسطے سے کہ میں ابن زبیر اور ان کے بعد کے ائمہ سے سنتا آیا ہوں وہ لوگ آمین کہتے ہیں اور ان کے مقتدی بھی آمین کہتے ہیں ، یہاں تک کہ مسجد میں ایک گونج پیدا ہوجاتی ہے اور ابوہریرہ امام کو کہا کرتے تھے کہ آمین کہتے ہوئے مجھ پر سبقت نہ کرو اس سے مراد بیہقی کی وہ روایت ہے جو صحیح سند کے ساتھ ابو رافع کے واسطے سے مروی ہے کہ ابوہریرہ مروان بن حکم کے لیے اذان دیتے تھے تو انھوں نے شرط لگائی کہ { وَلَا الضَّآلِیْنَ} پر وہ سبقت نہیں کریں گے، یہاں تک کہ وہ جان لیں کہ وہ صف میں شامل ہوگئے ہیں تو مروان جب کہتا: { وَلَا الضَّآلِیْنَ} تو ابوہریرہ آمین کہتے اور اپنی آواز کھینچتے اور کہا کہ جب اہل زمین کی آمین کہنا اہل سما کی آمین سے موافقت کرتی ہے تو ان کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ عطاء نے کہا ہے کہ میں نے اس مسجد میں دو سو صحابہ کرام کو پایا ہے، جب امام { غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْنَ} کہتا تو میں ان کی آمین کی گونج سنتا] اور کہا حافظ ابن حجر نے ’’درایہ في تخریج أحادیث الہدایۃ‘‘ میں : ’’وفي الباب عن علقمۃ بن وائل عن أبیہ أنہ صلی مع النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم فلما
Flag Counter