ہے کہ وہ اس غلطی پر خبردار ہوگئے ہوں اور وہ اس کے متن میں صواب اور درستی کی طرف لوٹ آئے ہوں اور اپنی سند میں علقمہ کا ذکر ترک کر دیا ہو۔ چوتھی ترجیح یہ ہے کہ جب دو روایتیں باہم متصادم ہوں تو رافع کی روایت زیادتی کو متضمن ہوگی اور قبولیت کے لیے زیادہ مناسب ہوگی۔ پانچویں ترجیح یہ ہے کہ وہ ابوہریرہ کی حدیث کے موافق ہے کہ ’’جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، کیونکہ جب امام آمین کہتا ہے تو فرشتے بھی آمین کہتے ہیں ، پس جس نے آمین کہنے میں ملائکہ کی تامین کی موافقت کی تو اس کی مغفرت کردی جاتی ہے۔‘‘ چھٹی ترجیح وہ روایت ہے جو حاکم نے صحیح سند کے ساتھ ابوہریرہ کے واسطے سے بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ام القرآن کی قراء ت سے فارغ ہوتے تو باآواز بلند آمین کہتے۔ ابو داود کی روایت بھی اسی معنی میں ہے۔ البتہ اس میں اتنی زیادتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین اتنی زور سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد پہلی صف کے لوگوں نے سنا۔ انھی کے واسطے سے ایک روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب { غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْنَ} کہتے تو آمین کہتے ہوئے آواز بلند کرتے اور اسی کا حکم دیتے۔ بیہقی نے علی کے واسطے سے ذکر کیا ہے کہ انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آمین کہتے ہوئے سنا، جبکہ انھوں نے { غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْنَ} کی قراء ت کی۔ انھی کے واسطے سے ان کے ہاں ایک اور روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب { وَلَا الضَّآلِیْنَ} کی قراء ت کرتے تو آمین کہتے ہوئے اپنی آواز بلند کرتے۔ ابو داود کے نزدیک بلال کے واسطے سے روایت ہے کہ بلال نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ مجھ سے پہلے آمین نہ کہا کریں ۔ ربیع نے کہا کہ امام شافعی سے امام کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا وہ آمین کہتے ہوئے اپنی آواز بلند کرے گا؟ تو انھوں نے کہا کہ ہاں ، اور اس کے مقتدی زور سے آمین کہیں گے۔ پھر میں نے پوچھا: دلیل کیا ہے؟ انھوں نے کہا: مجھے مالک نے بتایا اور پھر ابوہریرہ کی متفق علیہ صحیح حدیث بیان کی۔ پھر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں ہے کہ جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، یہ اس بات پر دال ہے کہ امام کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ آمین بالجہر کہے، کیونکہ اس کے پیچھے جو لوگ ہیں وہ آمین کہنے کا وقت نہیں جانتے الا یہ
|