Maktaba Wahhabi

389 - 702
ہو درمیان شعبہ و سفیان کے تو قول سفیان کا مرجح ہوگا اوپر قول شعبہ کے، خصوص ایسے حالات میں کہ علی بن صالح اور علاء بن صالح اور محمد بن سلمہ بن کہیل یہ سب سلمہ بن کہیل سے مثل سفیان ثوری کے روایت کرتے ہیں ، تو اب اس وقت میں روایت شعبہ کی مخالف پڑی روایت اتنے حفاظ کے۔ اور علاوہ ا س کے ابو الولید ا لطیالسی نے شعبہ سے بھی مثل حدیث سفیان کے روایت کی ہے۔ پس اب یہی روایت ان کی قابل قبول ہوگی، کیونکہ یہ روایت مطابق پڑتی ہے روایت اور حفاظ کے اور وہ روایت ’’خفض بہا صوتہ‘‘ کی مخالف ہے روایت جمیع حفاظ کے۔ کہا امام ترمذی نے سنن میں : ’’قال أبو عیسی: سمعت محمدا یقول: حدیث سفیان أصح من حدیث شعبۃ في ھذا، وأخطأ شعبۃ في مواضع من ھذا الحدیث، فقال: عن حجر أبي العنبس، وإنما ھو حجر ابن العنبس ویکنی أبا السکن، وزاد فیہ: عن علقمۃ بن وائل، ولیس فیہ عن علقمۃ، وإنما ھوحجر بن عنبس عن وائل بن حجر، وقال: وخفض [بھا صوتہ] وإنما ھو: مد بہا صوتہ۔ قال أبو عیسیٰ: و سألت أبا زرعۃ عن ھذا الحدیث فقال: حدیث سفیان في ھذا أصح، قال: روی العلاء بن صالح الأسدي عن سلمۃ بن کہیل نحو روایۃ سفیان‘‘[1] انتھی [ابو عیسیٰ نے کہا کہ میں نے محمد کو کہتے ہوئے سنا: اس معاملے میں سفیان کی حدیث شعبہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے اور اس حدیث میں شعبہ نے کئی جگہوں میں غلطی کی ہے۔ 1شعبہ نے کہا ہے: حجر ابی العنبس کے واسطے سے، جبکہ وہ حجر بن العنبس ہے جن کی کنیت ابو السکن ہے۔ 2 اس میں زیادتی کی ہے: علقمہ بن وائل کے واسطے سے، جبکہ اس میں عن علقمہ ہے ہی نہیں ، وہاں تو حجر بن عنبس، وائل بن حجر کے واسطے سے ہے۔ 3شعبہ نے کہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز پست رکھی جبکہ وہاں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آواز کو کھینچا۔ ابو عیسیٰ نے کہا: میں نے اس حدیث کے بارے میں ابوزرعہ سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ سفیان کی حدیث اس سلسلے میں زیادہ صحیح ہے۔ انھوں نے کہا
Flag Counter