[جان لو کہ اس حدیث میں دوسری علت ہے، جس کا ذکر ترمذی نے اپنی علل کبیر میں کیا ہے اور کہا ہے کہ میں نے محمد بن اسماعیل سے پوچھا: کیا علقمہ نے اپنے والد سے سماعت کی ہے؟ تو انھوں نے کہا: ان کی پیدایش ان کے باپ کی موت کے چھے ماہ کے بعد ہوئی ہے]
اور حافظ ابن حجر ’’تقریب التہذیب‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’علقمۃ بن وائل بن حجر، بضم المہملۃ و سکون الجیم، الحضرمي الکوفي، صدوق إلا أنہ لم یسمع من أبیہ‘‘[1] انتھی
[ علقمہ بن وائل بن حجر حضرمی کوفی صدوق ہیں ، البتہ انھوں نے اپنے باپ سے سماعت نہیں کی ہے۔ ختم شد]
اور کہا شیخ کمال الدین ابن الہمام نے ’’فتح القدیر شرح ہدایہ‘‘ میں :
’’وفیہ علۃ أخری، ذکرھا الترمذي في عللّٰه الکبیر، أنہ سأل البخاري: ھل سمع علقمۃ عن أبیہ؟ فقال: إنہ ولد بعد موت أبیہ بستۃ أشھر‘‘[2] انتھی
[اس میں دوسری علت ہے جس کا ذکر ترمذی نے علل کبیر میں کیا ہے کہ انھوں نے بخاری سے پوچھا: کیا علقمہ نے اپنے باپ سے سماعت کی ہے؟ تو انھوں نے کہا: ان کی پیدایش اپنے باپ کی وفات کے چھے ماہ بعد ہوئی تھی۔ ختم شد]
خیر! قطع نظر اس کے کہ علقمہ کو سماع ثابت ہو یا نہ ہو، یہ حدیث شعبہ کی قابل حجت کے نہیں ہے، کیونکہ اتفاق کیا ہے حفاظ حدیث نے مثل بخاری وغیرہ کے کہ شعبہ سے اس حدیث میں چند وہم ہوگئے ہیں :
اول: یہ کہ کہا شعبہ نے حجر ابو العنبس۔ و حال یہ کہ وہ حجر بن العنبس ہے اورکنیت اس کی ابوالسکن۔
دوم: یہ کہ زیادہ کیا شعبہ نے سند میں علقمہ بن وائل کو، و حال یہ کہ اس سند میں علقمہ واقع نہیں ہے، بلکہ حجر ابن العنبس روایت کرتا ہے وائل بن حجر سے۔
تیسرے یہ کہ بجائے لفظ ’’مد بھا صوتہ‘‘ کے ’’خفض بھا صوتہ‘‘ کہہ دیا۔ اور خود شعبہ نے سفیان کو احفظ کہا ہے اور کہا یحییٰ بن سعید القطان اور یحییٰ بن معین نے کہ جس وقت اختلاف واقع
|