Maktaba Wahhabi

387 - 702
بن وائل عن أبیہ وائل بن حجر أنہ صلی مع رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم فلما بلغ { غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْنَ} قال آمین، وأخفی بھا صوتہ‘‘[1] [شعبہ کے واسطے سے تخریج کی ہے، وہ سلمہ بن کہیل کے واسطے سے روایت کرتے ہیں ، وہ حجر ابو العنبس کے واسطے سے، وہ علقمہ بن وائل کے واسطے سے اور وہ اپنے والد وائل بن حجر کے واسطے سے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، پس جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم { غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْنَ} پرپہنچے تو آمین کہی اور اپنی آواز کو پست رکھا] ’’اور اعتراض عدم سماع علقمہ کو خود ترمذی نے کتاب الحدود میں بایں عبارت: ’’علقمۃ بن وائل بن حجر سمع من أبیہ، وھو أکبر من عبد الجبار بن وائل، و عبد الجبار لم یسمع عن أبیہ‘‘ رفع کردیا ہے۔ ‘‘ أقول: علقمہ کی سماعت وائل بن حجر سے مختلف فیہا ہے۔ بعض ائمہ حدیث کہتے ہیں کہ سماعت ثابت ہے اور بعض کہتے ہیں کہ سماعت ثابت نہیں ۔ اور امام ترمذی کے کلام میں تعارض واقع ہے۔ کیونکہ سنن ترمذی کے کتاب الحدود میں لکھا ہے : ’’وعلقمۃ بن وائل بن حجر سمع من أبیہ، وھو أکبر من عبد الجبار بن وائل، و عبد الجبار لم یسمع من أبیہ‘‘[2] انتھی [اور علقمہ بن وائل بن حجر نے اپنے والد سے سماعت کی اور وہ عبدالجبار بن وائل سے بڑے ہیں ، اور عبدالجبار نے اپنے باپ سے سماعت نہیں کی] و علل کبیر میں اس کے خلاف لکھا ہے، جیسا کہ امام جمال الدین زیلعی نے ’’نصب الرایہ‘‘ میں کہا: ’’واعلم أن في الحدیث علۃ أخری، ذکرھا الترمذي في عللّٰه الکبیر، فقال: سألت محمد بن إسماعیل: ھل سمع علقمۃ من أبیہ؟ فقال: إنہ ولد بعد موت أبیہ بستۃ أشھر‘‘[3] انتھی
Flag Counter