اور کہا علامہ قسطلانی نے شرح صحیح بخاری میں :
’’ویکبر أھل الأسواق بتکبیرہ حتی ترتج منٰی۔ بتشدید الجیم أي تضطرب و تتحرک مبالغۃ في اجتماع رفع الأصوات‘‘[1] انتھی
[اور اہل بازار تکبیر کہتے ہیں ان کی تکبیر سے حتی کہ منیٰ دہل جاتا تھا، یعنی مضطرب اور متحرک ہو جاتا، بطور مبالغہ بلند آوازوں کے اجتماع کی صورت میں ۔ ختم شد]
اور ایسا ہی کہا جلال الدین سیوطی نے تو شیح حاشیہ بخاری میں ۔
اور کہا علامہ محمد طاہر فتنی نے مجمع بحارالانوار میں :
’’ارتج أي اضطرب، افتعل من الرج، وھو الحرکۃ الشدیدۃ، ومنہ نفخ الصور فترتج الأرض بأرضھا أي تضطرب‘‘ انتھی
[ ’’ارتج‘‘ کا مطلب مضطرب ہونا ہے، یہ رج سے باب ا فتعال سے ہے جس کا معنی حرکت شدیدہ ہے، اور اسی سے نفخ صور ہے جس کی وجہ سے زمین لرز اٹھے گی یعنی مضطرب ہوجائے گی۔ ختم شد]
اور کہا ’’منتہی الأرب في لغات العرب‘‘ میں :
’’ارتجاج: لر زیدن وموج زدن دریا، ومنہ الحدیث: من رکب البحر حین یرتج فلا ذمۃ لہ أي إذا اضطربت أمواجہ‘‘[2] انتھی
[ارتجاج کا معنی ہے لرزنا اور دریا میں موج کا آنا۔ اسی سے حدیث ہے کہ جب سمندر میں طغیانی ہو اور اس صورت میں کوئی سمندر کا سفر کرے تو اس کی کوئی ذمے داری نہیں ہے، یعنی جب اس کی موجیں لرز رہی ہوں ۔ختم شد]
پس جبکہ منی جو ایک میدان تھا اور اس میں چھت وغیرہ کچھ نہ تھی، اس میں ارتجاج ممکن ہوا تو ارتجاج مسجد رسول اللہ جس پر چھت کھجور کے پتے کی تھی، کیا مستبعد ہے ؟
قولہ: اور واضح رہے کہ ترمذی میں ایک حدیث وائل بن حجر کی ہے، اس کی اصل عبارت لکھی جاتی ہے:
’’أخرج عن شعبۃ عن سلمۃ بن کہیل عن حجر أبي العنبس عن علقمۃ
|