Maktaba Wahhabi

385 - 702
عدی نے اس کی توثیق کی ہے اور امام احمد و امام بخاری نے بھی کاذب و واضع الحدیث نہیں کہا ہے، بلکہ صرف لفظ ضعیف کا۔ اور ابو عبداللہ کی ابن حبان نے توثیق کی ہے اور حافظ نے مقبول کہا ہے، اور کسی نے آج تک اس کو وضاعین میں شمار نہیں کیا ہے۔ اس قدر قلتِ حیا و ادب معترض کو سزاوار نہیں ۔ اور ارتجاج کے معنی معترض نے جو گونجنے کے سمجھا ہے، وہ ا س کی جہالت و سوء فہمی ہے، لغت میں کہیں گونجنے کے معنی نہیں لکھا ہے، بلکہ اصل معنی ارتجاج کے اضطراب و تحرک کے ہیں ، یعنی مسجد ہل جاتی تھی بسبب آواز آمین کے اور یہ حقیقت پر محمول نہیں بلکہ بطور مبالغہ کے کہا گیا ہے اور مراد اس سے اجتماع رفعِ ا صوات ہے اور اس طرح کا محاورہ عرب میں بہت شائع ہے۔ دیکھو! صحیح بخاری کتاب العیدین میں : ’’باب التکبیر أیام منٰی، و إذا غدا إلی عرفۃ، و کان عمر رضي اللّٰه عنہ یکبر في قبتہ بمنی، و یکبر أھل المسجد، و یکبر أھل السوق حتی ترتج منیٰ تکبیرا‘‘[1] انتھی یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ تکبیرکہتے تھے خیمہ کے اندر منیٰ میں ، پس سنتے تھے اس تکبیر کو مسجد کے لوگ، پس و ہ لوگ تکبیر کہتے تھے اور تکبیر کہتے تھے سارے بازاری لوگ، یہاں تک کہ منیٰ تکبیر کہنے سے ہل جاتا تھا۔ اور مراد ہل جانے سے یہ نہیں کہ منیٰ حقیقتاً دہل جاتا تھا، بلکہ مراد اس سے اجتماع رفعِ اصوات ہے۔ کہا حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں : ’’ قولہ: ترتج۔ بتثقیل الجیم أي تضطرب و تتحرک، و ھي مبالغۃ في اجتماع رفع الصوت‘‘[2] انتھی [ ’’ترتج‘‘ یعنی مضطرب اور متحرک ہوجانا۔ یہ مبالغہ بلند آواز کے اجتماع کی صورت میں مبالغے کے لیے ہے۔ ختم شد]
Flag Counter