Maktaba Wahhabi

382 - 702
ہے۔یہ ظاہر اور مطابق عقل سلیم کے ہے کہ جب مسلمان لوگ آپس میں ایک دوسرے کو سلام کرتے تھے تو یہود لوگ اس سلام اور اتحاد و محبت پر ان کے حسد کرتے تھے۔ آیا کوئی عاقل یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ لوگ سلام آہستہ کہتے تھے؟ اسی طرح جب لوگ نماز میں آمین پکار کر کہتے تھے تو یہود اس آمین کی آواز پر، جو جماعت کثیرہ کی زبان سے نکلتی تھی، حسد کرتے تھے اور یہ آواز ان کے کان میں مثل کانٹے کے چبھتی تھی۔ اور کوئی عاقل یہ نہیں سمجھے گا کہ ان کے آہستہ آمین کہنے پر یہود حسد کرتے تھے۔ کیونکہ ان کو کیا خبرکہ مسلمانوں نے آمین کہی یا نہ کہی؟ اور علاوہ اس کے بہت چیزیں نماز میں آہستہ پڑھی جاتی ہیں ، پھر اس پر کیوں نہیں حسد کرتے تھے؟ تو اس سے صاف معلوم ہوا کہ اشخاص متعددہ کی زبان سے جب آواز آمین سنتے تھے تو یہ آواز ان کو بری معلوم ہوتی تھی اور وہ غصہ میں آجاتے اور حسد کرتے۔ وھذا ظاھر علی من لہ أدنی فطانۃ! اسی واسطے ابن ماجہ نے اس حدیث کو ’’باب الجہر بالتأمین‘‘ میں استدلالاً ذکر کیا ہے، اگر آپ کی فہم ناقص میں یہ بات نہ آئے تو اپنی فہم پر رویئے۔ وکم من عائب قولا صحیحا وآفتہ من الفھم السقیم[1] اور اس حدیث کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی سوائے ابن ماجہ کے اور محدثین نے بھی روایت کیا ہے۔ فرمایا حافظ عبدالعظیم نے کتاب الترغیب میں : ’’رواہ ابن ماجہ بإسناد صحیح، وابن خزیمۃ في صحیحہ، وأحمد، ولفظہ: أن رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم ذکرت عندہ الیہود فقال: إنھم لم یحسدونا علی شيء کما حسدونا علی الجمعۃ التي ھدانا اللّٰه وضلوا عنہا، وعلی القبلۃ التي ھدانا اللّٰه لہا و ضلوا عنہا، وعلی قولنا خلف الإمام: آمین۔ و رواہ الطبراني في الأوسط بإسناد حسن، ولفظہ: قال: إن الیھود قد سئموا دینہم، وھم قوم حسد، ولم یحسدوا المسلمین علی أفضل من ثلاث: ردالسلام وإقامۃ الصفوف وقولھم خلف إمامھم: آمین‘‘[2] انتھی [اسے ابن ماجہ نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے اور ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں اور
Flag Counter