سے تھام لو۔ خفاف نے کہا کہ اسحاق نے اپنے حافظے سے ہمیں دس ہزار احادیث املا کرائیں ، پھر ان کو پڑھا اپنی کتاب میں تو اس میں نہ زیادتی کی اور نہ نقص ابراہیم بن ابوطالب نے کہا کہ اسحاق نے اپنی پوری مسند اپنے حفظ سے املا کروائی۔ ختم شد]
اور معنی ’’لا تسبقني بآمین‘‘ کے یہ ہیں کہ کہا بلال رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے: اے رسول اﷲ کے! آپ سبقت نہ کیجیے مجھ پر آمین کہنے میں ۔ یعنی مثلاً اگر ایسا واقعہ ہو کہ میں کسی کام میں جیسے تسویہ صفوف وغیرہ میں مشغول رہوں اور یہاں تک مجھ کو توقف ہوجاوے کہ آپ سورہ فاتحہ پڑھ کر آمین کہہ لیویں ، ایسا نہ کیجیے، کیونکہ اس صورت میں میر ی آمین امام کی آمین کے ساتھ فوت ہوجاوے گی اور انھوں نے اس امر کی استدعاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس واسطے کی کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
’’إن رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم قال: إذا أمّن الأمام فأمنوا، فإنہ من وافق تأمینہ تأمین الملائکۃ غفرلہ ما تقدم من ذنبہ‘‘[1] رواہ مالک وغیرہ
یعنی فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، کیونکہ جس کی آمین مل جاوے گی فرشتوں کی آمین سے بخشے جائیں گے اگلے گناہ ا س کے۔
تو بلال رضی اللہ عنہ نے اپنی آمین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ا ٓمین کے ساتھ فوت ہوجانے کو نہ چاہا، کیونکہ اس میں محرومی خیر کثیر سے ہے۔ پس لفظ ’’لا تسبقني بآمین‘‘ سے ظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آمین کو پکار کر کہتے تھے،ورنہ آپ کا آمین کہنا بلال رضی اللہ عنہ کوکیونکر معلوم ہوا کہ انھوں نے استدعا عدم سبقت کی کی؟ وباللّٰه التوفیق۔
باقی رہ گئے اس حدیث میں پانچ راوی:
اول: وکیع بن الجراح۔ پس کہا حافظ نے تقریب میں :
’’وکیع بن الجراح أبو سفیان الکوفي ثقۃ حافظ عابد من کبار التاسعۃ‘‘[2] انتھی
[ وکیع بن جراح ابو سفیان کوفی ثقہ ہیں ، عابد ہیں اور نویں درجے کے کبار میں سے ہیں ۔ ختم شد]
|