عن أبي عثمان عن بلال قال: یا رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم : لا تسبقني بآمین‘‘[1] انتھی
[ہم سے اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ نے بیان کیا، ان کو وکیع نے سفیان کے واسطے سے، وہ عاصم کے واسطے سے، وہ ابو عثمان کے واسطے سے اور وہ بلال رضی اللہ عنہ کے واسطے سے کہ انھوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھ سے پہلے آمین نہ کہیے۔ ختم شد]
’’اسحاق راوی کو صفحہ (۲۷) کتاب تقریب میں تغیر قبل موت اور میزان الاعتدال کے صفحہ (۷۳) میں ’’اختلط في آخر عمرہ‘‘ لکھا ہے، پس اس حدیث کا راوی مجروح۔ یہ بھی ضعیف ہوئی اور کوئی لفظ جہر وغیرہ بھی نہیں ہے اور قیاس مفید نہیں ۔‘‘
أقول: معترض نے تو قیامت برپا کردیا۔ إنا للّٰه وإنا إلیہ راجعون۔ بھلا اگر اسحق بن ابراہیم بن راہویہ کی حدیث ضعیف ٹھہرے گی تو پھر کس کی حدیث قابل حجت کے ٹھہرے گی؟ ابن راہویہ وہ شخص ہے جس کی شان میں نقادین نے ’’أحد الأئمۃ الأعلام مجتہد حافظ ثقۃ حجۃ مأمون إمام من أئمۃ المسملین‘‘کہا ہے اور یہ سب اعلیٰ درجے کی تعدیل ہے۔
کہاحافظ ذہبی نے مقدمہ میزان الاعتدال میں :
’’فأعلی العبارات في الرواۃ المقبولین: ثبت حجۃ، وثبت حافظ، وثقۃ متقن، ثم ثقۃ، ثم صدوق‘‘[2] انتھی
[مقبو ل روات کے متعلق اعلیٰ عبارتیں : ثبت، حجت اور ثبت حافظ، اور ثقہ متقن، پھر ثقہ، پھر صدوق ہیں ۔ ختم شد]
ہاں البتہ پانچ مہینے قبل از وفات ان کے حافظے میں کچھ تغیر ہوگیا تھا، مگر یہ مفید مطلب معترض نہیں ، اس واسطے کہ ائمہ خمسہ یعنی بخاری و مسلم و ابو داود و ترمذی و نسائی کی کتابوں میں جتنی احادیث ان سے ہیں ، وہ سب قبل اختلاط کے ہیں ۔ دیکھو! ابو داود نے خود کہا ہے کہ اسحاق بن راہویہ سے جو روایت ہم نے حالتِ اختلاط میں کیا ہے، اس کو پھینک دیا ہے۔ جیسا کہ میزان الاعتدال میں ہے:
|