Maktaba Wahhabi

371 - 702
اور امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے: ’’قال أبو عیسی: حدیث وائل بن حجر حدیث حسن‘‘[1] انتھی [ ابو عیسیٰ نے کہا کہ وائل بن حجر کی حدیث حسن ہے۔ ختم شد] اور بھی ترمذی نے بہت جگہوں میں اس کی حدیث کو صحیح و حسن کہا ہے۔ چنانچہ کہا: ’’باب ما جاء في کراھیۃ أن یبادر الإمام في الرکوع والسجود۔ حدثنا محمد بن بشار ثنا عبد الرحمن بن مھدي نا سفیان عن أبي إسحاق عن عبد اللّٰه بن یزید قال: ثنا البراء ۔۔۔ إلی آخر الحدیث‘‘[2] اور پھر کہا: ’’وقال أبو عیسی: حدیث البراء حسن صحیح۔‘‘ انتھی [ابو عیسیٰ نے البراء کی حدیث کو حسن صحیح کہا ہے۔ ختم شد] پس ثابت ہوا کہ محمد بن بشار بندار ثقہ و صدوق بلا شک و شبہ ہے۔ ابن خزیمہ و ابن سیار فرہیانی و ترمذی و ابو داود و ابو حاتم و نسائی و عجلی و ذہلی و مسلمہ و خطیب اور ایک جماعت محدثین نے ا س کی توثیق کی ہے اور شیخین نے اپنی صحیحین میں اس سے روایت کی ہے، یہاں تک کہ کہا ذہبی نے کہ اجماع منعقد ہوگیا ہے اوپر احتجاج حد یث محمد بن بشار کے۔ اور یہی حق صریح ہے۔ فماذا بعد الحق إلا الضلال! اگر مطلق جرح معتبر ہو اور جارح اس کا کیسا ہی ہو تو اس صورت میں سب راوی مجروح ہو جاویں گے، کوئی جرح سے خالی نہیں رہے گا اور بھلا کوئی ذی عقل و شعور اس کو پسند کرے گا؟! فرمایا علامہ زیلعی نے ’’نصب الرایہ‘‘ میں بیچ بیان جہر بہ بسم اللہ کے : ’’مجرد الکلام في الرجل لا یسقط حدیثہ، ولو اعتبرنا ذلک لذھب معظم السنۃ إذ لم یسلم من کلام الناس إلا من عصمہ اللّٰه ‘‘[3] انتھی [کسی آدمی کے بارے میں مجرد کلام اس کی حدیث کو ساقط نہیں کرتا ہے۔ اگر ہم اس کا اعتبار کرلیں تو سنت کا بیشتر حصہ ختم ہوجائے گا، کیونکہ لوگوں کے کلام سے صرف وہی محفوظ
Flag Counter