أصغی أحد إلی تکذیبہ لتیقنہم أن بندارا صادق أمین، وقال عبد اللّٰه ابن الدورقي: کنا عند یحییٰ بن معین فجری ذکر بندار فرأیت یحییٰ لا یعبأ بہ ویستضعفہ، وقال ابن سیار: وھو ثقۃ، وقال أبو داود: وکتبت عن بندار نحواً من خمسین ألف حدیث، ولولا سلامۃ فیہ لترکت حدیثہ، وقال أبوحاتم وغیرہ: صدوق، قلت: کان من أوعیۃ العلم، روی عنہ الأئمۃ الستۃ وابن خزیمۃ وابن ساعد والناس، قال العجلي: کثیر الحدیث، وقال ابن خزیمۃ في کتاب التوحید: حدثنا إمام أھل زمانہ في العلم والأخبار: محمد بن بشار بندار‘‘[1] انتھی مختصرا
[محمد بن بشار بصری حافظ بندار ثقہ اور صدوق ہیں ، فلاس نے ان کی تکذیب کی ہے لیکن کوئی ان کی تکذیب کی طرف مائل نہیں ہوا ہے کیونکہ ان کو یقین ہے کہ بندار صادق امین ہیں ۔ عبداللہ بن دورقی نے کہا ہے کہ ہم یحییٰ بن معین کے پاس تھے تو وہاں بندار کا ذکر آیا تو میں نے دیکھا کہ یحییٰ ان پر کوئی توجہ نہیں دے رہے ہیں اور ان کو ضعیف کہہ رہے ہیں ۔ ابن سیار نے کہا: وہ ثقہ ہیں ۔ ابو داود نے کہا ہے کہ میں نے بندار کے واسطے سے تقریباً پچاس ہزار حدیث لکھی ہے۔ اگر ان میں سلامتی نہ ہوتی تو میں ان کی حدیث چھوڑ دیتا۔ ابو حاتم وغیرہ نے کہا کہ وہ صدوق ہیں ۔ میں نے کہا کہ وہ علم کے حفاظ میں سے تھے۔ ان کے واسطے سے ائمہ ستہ، ابن خزیمہ اور دیگر لوگوں نے بھی نے روایت کی ہے۔ عجلی نے کہا کہ وہ کثیر الحدیث ہیں ۔ ابن خزیمہ نے کتاب التوحید میں کہا ہے کہ ہم سے علم اور اخبار میں اپنے زمانے کے امام محمد بن بشار بندار نے بیان کیا۔ ختم شد]
اور کہا حافظ ابن حجر نے ’’مقدمہ فتح الباری‘‘ میں :
’’محمد بن بشار البصري المعروف ببندار، أحد الثقات المشھورین، روی عنہ الأئمۃ الستۃ، وثقہ العجلي و النسائي وابن خزیمۃ، وسماہ إمام أھل زمانہ، والفرھیاني والذھلي و مسلمۃ وأبو حاتم الرازي وآخرون، و ضعفہ عمرو بن علي الفلاس، و لم یذکر سبب ذلک فما عرجوا علی
|