ہے اور وہ راوی ہے صحاح ستہ کا۔ اس کی ثقاہت میں کچھ شک نہیں ۔
کہا خلاصہ میں :
’’حمید بن عبد الرحمن بن حمید الرؤاسي، بضم الراء وفتح الہمزۃ، أبو علي الکوفي، عن الأعمش و ھشام بن عروۃ وطائفۃ، وعنہ أحمد وقتیبۃ وأبو بکر وعثمان ابنا أبي شیبۃ، و ثقہ ابن معین‘‘[1] انتھی
[ حمید بن عبدالرحمان الرؤاسی ’’ر‘‘ کے ضمے کے ساتھ اور ہمزہ کے فتحے کے ساتھ، ابو علی کوفی۔ اعمش، ہشام بن عروہ اور کچھ لوگوں کے واسطے سے روایت کرتے ہیں اور ان سے احمد، قتیبہ، ابوبکر بن ابی شیبہ، اور عثمان بن ابی شیبہ روایت کرتے ہیں ۔ ان کو ابن معین نے ثقہ کہا ہے]
اور تقریب میں ہے:
’’حمید بن عبد الرحمن بن حمید بن عبد الرحمن الرؤاسي الکوفي ثقۃ‘‘[2] انتھی
[ حمیدبن عبدالرحمان بن حمید بن عبدالرحمان الرؤاسی کو فی ثقہ ہیں ۔ ختم شد]
اور وہ حمید جس کو معترض نے میزان الاعتدال سے نقل کیا ہے، وہ حمید دوسرا ہے کہ جس کو مجہول لکھا ہے۔ دیکھو! عبارت میزان الاعتدال کی یہ ہے:
’’حمید بن عبد الرحمن عن أبیہ عن جدہ۔ قال أبو بکر الخطیب: مجھول‘‘[3] انتھی
[حمید بن عبدالرحمن اپنے باپ کے واسطے سے اور وہ ان کے دادا کے واسطے سے روایت کرتے ہیں ۔ ابوبکر خطیب نے مجہول کہا ہے]
معترض بالکل ناآشنا ہے علم حدیث سے۔ اس کو اتنی بھی تمیز نہ ہوئی کہ یہاں پر کون حمید بن عبدالرحمن ہے؟ اس نے اپنی نصرت کے لیے جس حمید کو ضعیف پایا اس کو راوی ابن ابی لیلی قرار دیا۔ نعوذ باللّٰه من ھذا الجہل!
|