اور ابو ہلال جس کے حق میں حافظ ابن حجر نے تقریب میں ’’صدوق فیہ لین‘‘[1] کہا ہے، وہ محمد بن سلیم ابو ہلال الراسبی البصری ہے، وہ بھی متفق علی ضعفہ نہیں ۔ ابو داود نے ثقہ کہا اور ابن معین وغیرہ نے صدوق کہا، جیسا کہ میزان میں مذکور ہے،[2] اور حافظ نے بھی فقط لفظ ’’لین الحدیث‘‘ جیساکہ معترض نے نقل کیا ہے، نہیں لکھا ہے، بلکہ لفظ ’’صدوق فیہ لین‘‘ لکھا ہے۔
اور بسم اللہ الرحمن الرحیم کے جہر سے مطلقاً انکار نہیں ہو سکتا ہے، کیونکہ جہر بسم اللہ میں احادیث بہت وارد ہیں ، اگرچہ اکثر ان میں ضعیف ہیں ، مگر تین چار حدیثیں ان میں صحیح و قوی ہیں اور منجملہ ان کے ایک حدیث یہی ہے۔ اور اس میں شک نہیں کہ اکثر معمول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی تھا کہ بسم اللہ کو سرّاً پڑھتے تھے، مگر بعض اوقات اس کے ساتھ جہر بھی کرتے تھے اور یہی مذہب ہے علمائے محققین کا۔
قولہ: ’’حدیث پنجم دار قطنی: اس حدیث کی نسبت ہم بتصریح عنوان میں لکھ چکے ہیں ، فانظر۔ اور یہ کہنا ’’حسنہ الحاکم وصححہ‘‘ کافی نہیں ۔ حاکم کی تصحیح معلوم ہے۔‘‘
أقول: آپ نے عنوان میں یہ تحریر کیا ہے کہ کتاب دار قطنی باوجود تلاش کے اس شہر میں بہم نہ پہنچی، اگر مستدل صاحب کتاب دار قطنی د کھلادیں گے یا حدیث کے راویوں کا نام بتادیں گے تو ان کی بھی کیفیت حال سن کر اپنے دعویٰ سے باز آویں گے؟ واہ حضرت واہ! کیوں نہیں ؟ شاباش! یوں ہی چاہیے۔ ابھی تک آپ کو سنن دارقطنی دیکھنے کی نوبت تو آئی نہیں اور آپ نے رجماً بالغیب، ا س پر حکم ضعف کا بھی لگادیا۔ خیر اگر آپ اس کے مطالعے سے محروم ہیں اور تحسین حاکم پر اکتفا نہیں کرتے ہیں تو میں پوری سند اس کی پیش کر تا ہوں اور اقوال علمائے ثقات صحت پر اس حدیث کی ہدیہ گزرانتا ہوں ۔
دیکھئے! روایت کیا امام حافظ ابو الحسن علی بن عمر الدار قطنی نے سنن میں :
’’ثنا محمد بن إسماعیل الفارسي ثنا یحییٰ بن عثمان بن صالح ثنا إسحاق بن إبراھیم حدثني عمرو بن الحارث حدثني عبد اللّٰه بن سالم عن الزبیدي حدثني الزھري عن أبي سلمۃ وسعید عن أبی ھریرۃ قال: کان النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم إذا فرغ من قراء ۃ أم القرآن رفع صوتہ،
|