Maktaba Wahhabi

352 - 702
فقرأ بسم اللّٰه الرحمن الرحیم، ثم قرأ بأم القرآن، حتی إذا بلغ: { وَلَا الضَّآلِیْنَ} قال: آمین، فقال الناس: آمین، ویقول کلما سجد: اللّٰه أکبر، وإذا قام من الجلوس في الاثنین قال: اللّٰه أکبر، ثم إذا سلم قال: والذي نفسي بیدہ إني لأشبھکم صلاۃ برسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم ‘‘[1] انتھی [ہمیں بتایا محمد بن عبد اللہ بن حکم نے شعیب کے واسطے سے، انھوں نے کہا کہ ہمیں بتایا لیث نے، ان کو خالد نے ابو ہلال کے واسطے سے، وہ نعیم کے واسطے سے کہ نعیم نے کہا کہ میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی۔ انھوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھی، پھر ام القرآن یعنی سورہ فاتحہ پڑھی، یہاں تک کہ جب وہ {وَلَا الضَّآلِیْنَ} پر پہنچے تو آمین کہا، تو لوگوں نے بھی آمین کہا۔ وہ کہتے ہیں کہ جب بھی سجدہ کیا، اللہ اکبر کہا اور جب دوسرے قعدے سے کھڑے ہوئے تو اللہ اکبر کہا، پھر جب سلام پھیرا تو کہا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، میں تم لوگوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے سب سے زیادہ مشابہ ہوں ۔ ختم شد] ’’روایت کیا نسائی نے قراء ۃ بسم اللہ الرحمن الرحیم میں ، یہ باب جہر آمین میں نہیں ہے۔ اول: تو اس حدیث میں جہر و عدم جہر کا کچھ ذکر نہیں ہے، صرف ’’قال آمین‘‘ ہے اور قول سے جہر ثابت نہیں ہوتا ہے، ورنہ ’’قولوا التحیات‘‘ سے التحیات کو بھی پکار کر پڑھنا چاہیے۔ دوم: اس کے سلسلہ میں ا بو ہلال ہے، جس کو تقریب وغیر ہ میں ’’لین الحدیث‘‘ لکھاہے، یعنی ضعیف۔ سوم: اس حدیث میں جو بسم اللہ کا ذکر ہے، جس کو اتفاق کر کے بہت سے محدثین نے رد کیا ہے۔ حدیث صحیحین اس کے لیے شا ہد عدل ہیں ۔‘‘ أقول: نسائی جو اس حدیث کو باب قراء ۃ بسم اللہ میں لائے تو کیا اب یہ مختص ہوگئی قراء ۃ بسم اللہ میں ؟ اور کسی مسئلہ کا حکم اس سے مستخرج نہیں ہو سکتا ہے ؟ یہ ایک امر عجیب و غریب قابل مضحکہ کے ہے۔ اجی معترض صاحب ! خواب غفلت سے بیدار ہویئے! آنکھیں کھولیے! آپ کو ابھی تک اس کی بھی خبر نہیں کہ ایک ایک حدیث سے کتنے کتنے مسائل مستخرج ہوتے ہیں ؟ اور یہ کہنا کہ اس میں جہر و عدم جہر کا ذکر نہیں ، صرف ’’قال آمین‘‘ ہے، اول دلیل ہے اوپر غباوت
Flag Counter