Maktaba Wahhabi

351 - 702
کہا۔ انھوں نے کہا کہ یہ زیادتی سفیان کی روایت کی موافقت میں ہے اور بیہقی نے ’’المعرفہ‘‘ میں کہا ہے کہ اس روایت کی سند صحیح ہے۔ختم شد] پس جب اتنے لوگوں نے سفیان ثوری کی متابعت کی تو اب حدیث ان کی ازروئے اسناد کے حسن لغیرہ سے تو کم نہ ہوگی۔ کہا حافظ ابن حجر نے ’’شرح نخبۃ الفکر‘‘ میں : ’’ومتی توبع السيء الحفظ بمعتبرکأن یکون فوقہ أو مثلہ، لا دونہ، وکذا المختلط الذي لا یتمیز، والمستور، والإسناد المرسل، وکذا المدلس، إذا لم یعرف المحذوف منہ، صار حدیثہم حسنا، لا لذاتہ، بل وصفہ بذلک باعتبار المجموع من المتابع والمتابع‘‘[1] انتھی [جب سییء الحفظ کی متابعت کی جائے گی کسی معتبر کے ذریعے جو اس سے اوپر ہو یا اس کے مثل، لیکن اس سے کم تر نہ ہو، اور ایسا ہی مختلط کے بارے میں ہے جو تمیز نہیں کرسکتا، اور مستور کے بارے میں اور اسناد مرسل کے بارے میں ہے اور ایسا ہی مدلس کے بارے میں ہیجس میں محذوف کی معرفت حاصل نہ ہو تو ان کی حدیث حسن ہوگی۔ حسن لذاتہ نہیں بلکہ متابع اور متابَع میں سے مجموعی صفت کا اعتبار کرکے۔ختم شد] اور ایسا ہی ہے شرح الفیہ عراقی اور مقدمہ شیخ عبد الحق دہلوی وغیرہ میں ۔[2] حاصل یہ کہ حدیث سفیان کی از روئے متن کے بہت صحیح ہے اور کسی متقدمین یا متاخرین کی جرح حدیثِ سفیان میں نظر سے نہیں گزری، بلکہ بڑے بڑے نقادین جو رکن علم حدیث کے ہیں ، جیسے بخاری، و ابوزرعہ، و ترمذی، و دار قطنی وغیرہ ان کا اتفاق اس کی صحت پر ثابت ہوا اور امام ابن القیم، و علامہ ابن سید الناس، و حافظ ابن حجر، و قاضی شو کانی نے اس کی صحت کو تسلیم کیا۔ قولہ: حدیث چہارم نسائی: ’’أخبرنا محمد بن عبد اللّٰه بن الحکم عن شعیب، حدثنا اللیث، حدثنا خالد، عن أبي ھلال، عن نعیم، قال: صلیت وراء أبي ھریرۃ رضي اللّٰه عنه
Flag Counter