بینھم تدلیسا لإیہام حصل فیہ، وقد جعلہ قوم صحیحا محتجا بہ، منھم: أبوحنیفۃ، وإبراھیم، وحماد بن أبي سلیمان، وأبو یوسف، ومحمد بن الحسن، ومن تابعھم من أئمۃ الکوفۃ، وجعلہ قوم غیر صحیح، ولا محتج بہ، منھم: الشافعي وابن المسیب، والزھري، والأوزاعي، وأحمد بن حنبل، ومن تابعھم من أئمۃ الحجاز و أھل الحدیث، لا یعدونہ صحیحا ولا محتجا بہ، و ھوعلی ستۃ أصناف‘‘[1] انتھی
[چوتھی قسم جو دوسری مختلف فیہ قسم ہے، مدلسین کی روایت جبکہ ان لوگوں نے اپنی سماعت کا ذکر روایت میں نہیں کیا ہے۔ وہ لوگ کہتے ہیں : فلاں نے کہا، ان سے جو ان کے معاصر ہیں ۔ چاہے اس نے انھیں دیکھا یا نہ دیکھا ہو۔ نہ ان کے واسطے سے سماع ثابت ہو اور نہ اجازت اور نہ طریق روایت میں سے کوئی طریق۔ تو وہ لوگ ان کے اس قول سے واہمے میں پڑجاتے ہیں کہ ان لوگوں نے اس سے سنا یا اس نے ان لوگوں کو اجازت دی ہے۔ وہ لوگ اپنے قول: ’’قال فلان‘‘ میں صادقین ہیں ، کیونکہ ان لوگوں نے کسی ایک ہی سے سن رکھا ہوتا ہے یا اس کے واسطے سے ایک سے زیادہ سے۔ اس کو وہ لوگ تدلیس کا نام دیتے ہیں اس میں ابہام کے پائے جانے کی بنا پر۔ کچھ لوگوں نے اس کو صحیح اور قابل حجت قرار ہے۔ ان میں سے ابوحنیفہ، ابراہیم، حماد بن ابی سلیمان، ابویوسف، محمد بن حسن اور کوفہ کے ائمہ متبعین ہیں ، اور کچھ لوگوں نے اسے غیر صحیح اور ناقابل حجت مانا ہے، ان میں شافعی، اوزاعی، احمد بن حنبل اور حجاز کے ان ائمہ کے متبعین اور اہل حدیث، یہ لوگ اسے صحیح جانتے ہیں اور نہ قابل صحت، اور یہ چھے قسمیں ہیں ۔ ختم شد]
اس سے معلوم ہوا کہ امام ہمام ، ابو حنیفہ اور صاحبین، اور ایک جماعت ائمہ کوفہ کے نزدیک عنعنہ مدلس کا مقبول ہے، تو اب معترض اس سے سرتابی نہیں کر سکتا ہے۔
دوم یہ کہ ائمہ محققین نے اس امر کو تسلیم کرلیا ہے کہ عنعنہ مدلس جو صحیحین میں واقع ہے، وہ حمل کیا جاوے گا اوپر ثبوت سماع کے، اگرچہ ہم کو اس کا علم نہ ہو۔
دیکھو! فرمایا حافظ امام ابو عمر و عثمان بن عبد الرحمن المعروف با بن الصلاح نے مقدمہ میں :
|