جیسا کہ اس کی روایت بخاری اور ابو زرعہ کے واسطے سے کی گئی ہے۔ ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے اور ابن سید الناس نے کہا ہے کہ چاہیے کہ وہ صحیح ہو۔ ختم شد]
اور امام دار قطنی نے بھی حدیثِ سفیان کو صحیح کہا ہے اور بیان اس کا بجواب اعتراض حدیث پنجم آئے گا۔ اور حافظ ابن حجر نے ’’تلخیص الحبیر‘‘ میں لکھا ہے :
’’وفي روایۃ أبي داود: ورفع [بھا[ صوتہ، وسندہ صحیح، صححہ الدارقطني‘‘[1] انتھی
[اور ابوداود کی روایت میں ہے: انھوں نے اس کے ساتھ آواز بلند کی۔ اس کی سند صحیح ہے، اس کو دار قطنی نے صحیح قرار دیا ہے۔ختم شد]
اور امام ابن القیم نے ’’اعلام الموقعین‘‘ میں لکھا ہے :
’’رواہ الترمذي وغیرہ، و إسنادہ صحیح‘‘[2] انتھی
[اس کی روایت ترمذی وغیرہ نے کی ہے اور اس کی سند صحیح ہے]
اگر معترض تقلیداً لمحمد شاہ پنجابی یہ شبہ پیش کرے کہ سفیان ثوری مدلس ہیں ، حدیث ان کی بغیر تصریح سماع مقبول نہ ہوگی تو جواب اس کا بچند وجوہ ہے:
اول یہ کہ عموماً یہ قول کہ عنعنہ مدلسین بلا تصریح سماع کے مقبول نہیں ، غیر مسلم ہے۔
امام حافظ مبارک بن محمد بن محمد بن عبد الکریم الشہیربابن الاثیر الجزری نے مقدمہ ’’جامع الأصول من أحادیث الرسول‘‘ میں تدلیس کی چھ قسمیں لکھی ہیں :
’’النوع الرابع، وھو الثاني من المختلف فیہ: روایۃ المدلسین إذا لم یذکروا سماعھم في الروایۃ، فیقولون: قال فلان، ممن ھو معاصرھم، رأوہ أو لم یروہ، ولا یکون لھم عنھم سماع ولا إجازۃ ولا طریق من طریق الروایۃ فیوھمون بقولھم: ’’قال فلان‘‘ أنہم قد سمعوا منہ، أو أجازہ لھم أو غیر ذلک، فیکونون في قولھم: ’’قال فلان‘‘ صادقین، لأنھم یکونون قد سمعوہ من واحد أو أکثر منہ عنہ، و ھذا یسمونہ
|