’’إنہ محمول علی ثبوت السماع من جہۃ أخری، و لو لم نطلع علیہ تحسینا للظن لصاحب الصحیح‘‘[1] انتھی مختصرا
[بے شک وہ سماع کے ثبوت پر محمول کیا جائے گا اس کی دوسری سند سے، خواہ ہم اس پر واقف نہ ہوں ، حسن ظن کے طور پر صاحب صحیح سے]
اور کہا امام محی الدین ابو زکریا نووی نے منہاج شرح مسلم بن الحجاج میں :
’’واعلم أن ما في الصحیحین عن المدلس بعن و نحوھا فمحمول علی ثبوت السماع من جھۃ أخری‘‘[2] انتھی
[جان لو کہ صحیحین میں مدلس کے واسطے سے ’’عن‘‘ وغیرہ جیسے الفاظ سے جو کچھ مروی ہے تو وہ دوسری سند کی وجہ سے ثبوتِ سماع پر محمول کیا جائے گا۔ختم شد]
اسی طور پر جب امیر المومنین فی الحدیث امام الجرح و التعدیل محمد بن اسماعیل البخاری اور ابوزرعہ و تر مذی و دارقطنی نے حدیثِ سفیان کی تصحیح و تحسین کی تو یہ عنعنہ اب حمل کیا جائے گا اس بات پر کہ ان ائمہ نقادین کے نزدیک سماع ثابت ہوگیا ہے۔
سوم یہ کہ سفیان ثوری اس روایت میں سلمہ بن کہیل سے متفرد نہیں ، بلکہ متابعت کی ہے ان کی علی بن صالح الہمدانی اور علاء بن صالح التیمی او الاسدی الکوفی اور محمد بن سلمہ بن کہیل نے۔ روایت علی بن صالح کی بیان حدیث اول میں گزری اور روایت علاء بن صالح کی ترمذی میں ہے :
’’ ثنا أبو بکر محمد بن أبان نا عبد اللّٰه بن نمیر عن العلاء بن صالح الأسدي عن سلمۃ بن کھیل نحو روایۃ سفیان‘‘[3] انتھی
[ہمیں بتایا ابو بکر محمد بن ابان نے، انھوں نے کہا کہ ہمیں بتایا عبداللہ بن نمیر نے علاء بن صالح اسدی کے واسطے سے اور وہ سلمہ بن کہیل کے واسطے سے، سفیان کی روایت کی طرح۔ ختم شد]
اور دار قطنی نے سنن میں لکھا ہے :
|