صدوق کہنا حجت قاطعہ ہے اوپر توثیق اس کی، اور مقابلہ میں اتنے معدلین کے فقط قول یحییٰ بن معین کا مقبول نہ ہوگا، کیونکہ باب جرحِ رواۃ میں ان کی شدت ظاہر و آشکارا ہے۔
علامہ جلال الدین سیوطی نے ’’زہر الربٰی علی سنن المجتبی‘‘ میں لکھا ہے:
’’إن کل طبقۃ من نقاد الرجال لا یخلو من متشدد، و متوسط، فمن الأولیٰ: شعبۃ وسفیان الثوري، وشعبۃ أشد منہ، ومن الثانیۃ: یحییٰ القطان، وعبد الرحمن بن مہدي، و یحییٰ أشد من عبد الرحمن، ومن الثالثۃ: یحییٰ بن معین وأحمد حنبل، ویحییٰ أشد من أحمد، ومن الرابعۃ: أبو حاتم والبخاري، و أبو حاتم أشد من البخاري‘‘ انتھی
[ناقدین رجال کے ہر طبقے میں کچھ متشدد ہیں اور کچھ متوسط، پہلے طبقے میں شعبہ اور سفیان ثوری ہیں اور شعبہ ان سے زیادہ سخت ہیں ، اور دوسرے طبقے میں یحییٰ قطان اور عبدالرحمان بن مہدی ہیں اور یحییٰ عبدالرحمان سے زیادہ سخت ہیں ، اور تیسرے طبقے میں یحییٰ بن معین اور احمد بن حنبل ہیں اور یحییٰ احمد سے زیادہ سخت ہیں ، اور چوتھے طبقے میں ابوحاتم اور بخاری ہیں اور ابوحاتم بخاری سے زیادہ سخت ہیں ۔ ختم شد]
پس یہ حدیث بھی صحیح ٹھہری، کیونکہ اس حدیث کے کل راوی ثقہ ہیں ۔
اول محمد بن کثیر العبدی، جن کی ثقاہت اور عدالت ابھی ثابت ہو چکی ہے۔ دوسرے سفیان ثوری، جن کے حق میں حافظ امام ابن الاثیر جزری نے ’’جامع الأصول في أحادیث الرسول‘‘ میں لکھا ہے:
’’سفیان بن سعید بن مسروق الثوري الکوفي إمام المسلمین، وحجۃ اللّٰه علی خلقہ، جمع في زمنہ بین الفقہ والاجتہاد والحدیث والزھد والعبادۃ والورع والثقۃ، وإلیہ المنتھی في علم الحدیث وغیرہ من العلوم، أجمع الناس علی دینہ وزھدہ وورعہ وثقتہ، ولم یختلفوا في ذلک، وھو أحد الأئمۃ المجتھدین، وأحد أقطاب الإسلام و أرکان الدین‘‘[1] انتھی ملخصاً
|