[ان کا قول: عبداللہ بن عمر اور ان کے بھائی عبداللہ کے واسطے سے… الخ، صحیح ہے کیونکہ عبیداللہ ثقہ، حافظ، ضابط اور ان کی حدیث سے حجت پر اجماع ہے، اور رہے عبداللہ تو وہ ضعیف ہیں ، ان کی حدیث سے حجت جائز نہیں ۔ بس جب راوی دونوں کو جمع کردے تو جائزہے اور اس حدیث پر عمل واجب ہے، عبیداللہ پر اعتماد کرتے ہوئے۔ ختم شد]
حاصل کلام کا یہ ہوا کہ جب کوئی حدیث چند طرق سے مروی ہو، ان میں بعض طرق کے رواۃ ضابط، عادل، ثقہ ہوں اور بعض طرق کے ضعفاء تو اب اعتماد اس حدیث صحیح پر ہوگا اور اس حدیث ضعیف کو اس حدیث صحیح کے سبب سے قوت حاصل ہو جائے گی، اور مسئلہ مبحوث عنہا میں یہی صورت واقع ہے، کیونکہ آمین بالجہر میں چند حدیث بسند صحیح مروی ہیں ، چنانچہ ایک کا بیان گزرا اور باقی کا آتا ہے۔
تو اب ما ورائے ان کے جو احادیث کہ ضعیف ہیں ، ان کا ضعف کچھ مضر مطلب و مدعا کے نہ ہوگا، کیونکہ اصالتاً اعتماد انھیں احادیث صحیحہ پر ہے اور احادیث ضعیفہ اسی کی متابعات شمار کی جاتی ہیں ، اور جس جماعت کی رائے پر حدیث ضعیف تعددِ طرق سے درجہ حسن کو پہنچ جاتی ہے، اس کے نزدیک تو ضعف باقی ہی نہ رہا۔
قولہ: حدیث سوم ابو داود:
’’حدثنا محمد بن کثیر أخبرنا سفیان عن سلمۃ عن حجر أبي العنبس الحضرمي عن وائل بن حجر قال: کان رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم إذا قرأ { وَلَا الضَّآلِیْنَ} قال ’’آمین‘‘، ورفع بھا صوتہ‘‘[1] انتھی
[ہمیں بتایا محمد بن کثیر نے، ان کو سفیان نے سلمہ کے واسطے سے، وہ حجر ابو العنبس حضرمی کے واسطے سے اور وہ وائل بن حجر کے واسطے سے کہ انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب {وَلَا الضَّآلِیْنَ} پڑھتے تو آمین کہتے اور آمین کہتے ہوئے آواز بلند کرتے۔ ختم شد]
’’حدیث ہذا کے راوی محمد بن کثیر کی نسبت تقریب میں کثیر الغلط لکھا ہے اور میزان الاعتدال میں محمد بن کثیر کو ثقہ نہیں ہے، لکھا ہے، لہٰذا یہ حدیث بھی ضعیف ثابت ہوئی۔‘‘
أقول: سبحان اللہ! معترض کیا غافل اور نا آشنا ہے فن رجال سے؟! اس کو تمیز نہ ہوئی کہ یہ محمد بن کثیر کون سا ہے ؟ آیا محمد بن کثیر بن ابی عطاء الثقفی الصنعانی یا محمد بن کثیر العبدی البصری؟ اس نے
|