Maktaba Wahhabi

339 - 702
اس طرح نہ ہو تو یہ مسئلہ ظاہراً فاسد ہے] اور ایسا ہی کہا شیخ سراج احمد سرہندی نے شرح جامع ترمذی میں : ’’و چوں حدیث ضعیف بتعدد طرق بمرتبہ حسن رسد آں نیز محتج بہ است و آنکہ مشہور است کہ حدیث ضعیف در فضائل اعمال معتبر است بجہت ترغیب نہ در غیر آن مفرد اتش مراد است نہ مجموع کہ آن بتعدد طرق در محل حسن است نہ ضعیف۔‘‘ انتہی [جب حدیث ضعیف تعددِ طرق کی وجہ سے حسن کے رتبے تک پہنچ جائے، وہ بھی قابل احتجاج ہے۔اور جو بات مشہور ہے کہ ضعیف حدیث فضائل اعمال میں قابل حجت ہے تو اس سے مراد اس کے مفردات ہیں نہ کہ مجموعی اعتبار سے، کیونکہ تعددِ طرق کا محل حسن ہے نہ کہ ضعیف] اور کہا علامہ قسطلانی نے مقدمہ ارشاد الساری شرح صحیح بخاری میں : ’’قد یکون کل من المتابعِ والمتابَع لا اعتماد علیھما، فباجتماعہما تحصل القوۃ‘‘[1] انتھی [ بسا اوقات متابِع اور متابَع دونوں پر اعتماد نہیں ہوتا، البتہ ان دونوں کے اجتماع سے قوت حاصل ہوتی ہے۔ ختم شد] اور کہا امام نووی نے شرح مہذب میں : ’’الضعیف إذا تعددت طرقہ صارحسناً لغیرہ‘‘[2] انتھی مختصرا [ضعیف حدیث جب متعدد طرق سے مروی ہو تو حسن لغیرہ ہوجاتی ہے۔ ختم شد] اور کہا امام نووی نے شرح مسلم کتاب الادب میں : ’’قولہ: عن عبید اللّٰه بن عمر وأخیہ عبد اللّٰه … الخ، ھذا صحیح لأن عبید اللّٰه ثقۃ حافظ ضابط مجمع علی الاحتجاج بہ، وأما أخوہ عبد اللّٰه ضعیف لا یجوز الاحتجاج بہ، فإذا جمع بینھما الراوي جاز، و وجب العمل بالحدیث اعتماداً علی عبید اللّٰه ‘‘[3] انتھی
Flag Counter