Maktaba Wahhabi

338 - 702
اور بھی کہا شیخ عبدالحق نے اشعتہ اللمعات شرح مشکوۃ میں : ’’احتجاج در احکام بخبر صحیح لذ اتہ مجمع علیہ است، و ہم چنیں حسن لذاتہ نزد عامئہ علما و آں ملحق بصحیح است در احتجاج اگرچہ در رتبہ کمتر است، و چوں حدیث ضعیف بتعدد طرق بمرتبہ حسن برسد آں نیزمحتج بہ است و آں کہ مشہور است کہ حدیث ضعیف در فضائل اعمال معتبر است نہ در غیر آن مفرد اتش مراد است نہ مجموع آں کہ بتعدد طرق داخل حسن است نہ ضعیف، صرح بہ الائمتہ۔ و بعض گفتہ اند اگر ضعف بجہت سوء حفظ بعض رواۃ یا اختلاط یا تدلیس بود، باوجود صدق و دیانت منجبر میگردد بتعدد طرق، و اگر از جہت اتہام کذب راوی یا بشذوذ و فحش خطا بود، اگرچہ تعدد طرق داشتہ باشد منجبر نگر دد، و حدیث محکوم بضعف باشد و در فضائل اعمال معمول و شاید کہ بریں صور ت محمول خواہد بود آنچہ بعض گفتہ اند کہ لحوق ضعیف بضعیف افادہ نمی کند قوت را وإلا ایں سخن ظاہر الفساد است۔‘‘[1] انتھی [خبر صحیح لذاتہ سے احکام میں دلیل لینا، اس پرسب کا اتفاق ہے۔ اسی طرح حسن لذاتہ اکثر علما کے نزدیک صحیح سے ملتی جلتی ہے دلیل لینے میں ، اگرچہ رتبے میں صحیح لذاتہ سے کم ہے۔ جب ضعیف حدیث تعدد طرق کی وجہ سے حسن درجے کو پہنچ جائے تو وہ بھی قابل حجت ہے اور جو یہ بات مشہور ہے کہ ضعیف حدیث فضائل اعمال میں قابل حجت ہے، یہ بات بعض ضعیف حدیث کے بارے میں ہے، بلکہ وہ ضعیف جو تعددِ طرق کی وجہ سے حسن میں داخل ہوجائے۔ اس قاعدہ کی ائمۃ الحدیث نے وضاحت کی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اگر ضعف بعض کے سوے حفظ یا اختلاط یا تدلیس کی وجہ سے ہو، باوجودیکہ راویوں میں صدق، امانت اور دینداری ہے تووہ حدیثیں زیادہ کثرتِ طرق کی وجہ سے ان کا نقص پورا ہو جائے گا اور اگر ضعف متہم بالکذب یا شذوذ یا فحش خطا کی وجہ سے ہو، تو تعددِ طرق سے بھی کمی پوری نہیں ہوگی، اور یہ جو مشہور ہے کہ وہ حدیث جس پر ضعف کا فیصلہ ہوا، فضائلِ اعمال میں اس پر عمل درآمد ہوگا تو وہ اسی صورت میں داخل ہے، جیسا کہ بعض نے کہا ہے کہ ضعیف ضعیف کے ساتھ ملنے سے قوی نہیں ہوتا ہے اور اگر
Flag Counter