الاحتجاج، وإن کان دونہ في المرتبۃ، والحدیث الضعیف الذي بلغ بتعدد الطرق مرتبۃ الحسن لغیرہ أیضا محتج بہ، وما اشتھر أن الحدیث الضعیف معتبر في فضائل الأعمال لا في غیرھا، المراد مفرداتہ لا مجموعہا، لأنہ داخل في الحسن لا في الضعیف، صرح بہ الأئمۃ، و قال بعضھم: إن کان الضعیف من جہۃ سوء حفظ أو اختلاط أو تدلیس مع وجود الصدق والدیانۃ، ینجبر بتعدد الطرق، وإن کان من جھۃ اتھام الکذب، والشذوذ أو فحش الخطأ، لا ینجبر بتعدد الطرق، والحدیث محکوم علیہ بالضعف، ومعمول بہ في فضائل الأعمال، وعلی مثل ھذا ینبغي أن یحمل ما قیل: إن لحوق الضعیف بالضعیف لا یفید قوۃ، وإلا فھذا القول ظاھر الفساد‘‘[1] انتھی
[ احکام کے سلسلے میں خبر صحیح سے حجت قائم کرنے پر اجماع ہے اور اسی طرح حسن لذاتہ سے بھی عام علما کے نزدیک، کیونکہ وہ بھی صحت فراہم کرنے کے باب میں صحیح سے ملحق ہے، اگرچہ اس سے مرتبے میں کم ہے، اور ضعیف حدیث جو متعدد طرق سے پہنچی ہو، حسن لغیرہ کے مرتبے میں ہے، اس سے بھی دلیل لی جاسکتی ہے اور یہ جو مشہور ہے کہ ضعیف حدیث صرف فضائلِ اعمال میں معتبر ہے، دوسرے میں نہیں تو اس سے مراد اس کے مفردات ہیں نہ کہ مجموع، کیونکہ وہ حسن میں داخل ہے، ضعیف میں نہیں ، ائمہ نے اسی کی صراحت کی ہے، اور بعض نے کہا ہے کہ اگر وہ ضعیف ہو سوے حفظ کی بنا پر یا اختلاط کی بنا پر یا تدلیس کی بنا پر صدق و دیانت کے وجود کے ساتھ تو وہ قبول ہوگی اپنے تعدد طرق کی بنا پر، اور اگر اس کا ضعف دروغ گوئی یا شذوذ یا فحش غلطی کی تہمت کی وجہ سے ہوتو تعددِ طرق کے باوجوداس کا اعتبار نہ ہوگا اور حدیث پر ضعف کا حکم لگایا جائے گا اور فضائلِ اعمال میں اس پر عمل کیا جائے گا، اور اسی طرح کی احادیث پر اس قول کو محمول کیا جانا چاہیے کہ ضعیف کا ضعیف سے ملنا قوت کا فائدہ نہیں دیتا۔ ورنہ یہ قول ظاہر الفساد ہے۔ ختم شد]
|