’’بشر بن رافع أبو الأسباط النجراني۔ ضعفہ أحمد وغیرہ، وقواہ ابن معین وغیرہ، وقال ابن عدي: لا بأس بأخبارہ لم أر لہ حدیثاً منکراً‘‘ انتھی
[ بشر بن رافع ابو الاسباط نجرانی کو احمد وغیرہ نے ضعیف قرار دیا ہے اور ابن معین وغیرہ نے قوی قرار دیا ہے، اور ابن عدی نے کہا ہے کہ ان کی حدیثوں میں کوئی حرج نہیں ہے، میں نے ان کی کوئی منکر حدیث نہیں دیکھی۔ختم شد]
اور کہا خلاصہ میں :
’’بشر بن رافع الحارثي أبو الأسباط، إمام مسجد نجران، عن یحییٰ بن أبي کثیر، وعنہ حاتم بن إسماعیل وعبد الرزاق، وثقہ ابن معین، وابن عدي، وقال البخاري: لا یتابع‘‘[1] انتھی
[ بشربن رافع حارثی ابو الاسباط نجران کی مسجد کے امام۔ وہ یحییٰ بن ابی کثیر سے اور ان سے حاتم بن اسماعیل اور عبدالرزاق روایت کرتے ہیں ۔ ابن معین اور ابن عدی نے ان کو ثقہ کہا ہے اور بخاری نے کہا کہ ان کی متابعت نہیں کی جاتی۔ ختم شد]
اب میں یہ کہتا ہوں کہ علاوہ اس امر کے کہ ضعف بشر بن رافع کا متفق علیہ نہیں ، مختلف فیہ ہے۔ غایۃ ما في الباب یہ ہے کہ یہ حدیث بانفرادہ قابل حجت نہ ہوگی، لیکن بانضمام حدیث اول جس کی صحت کامل طور پر اوپر ثابت ہو چکی، و باجتماع دوسری احادیث صحیحہ کے جن کا بیان آگے آئے گا، ضعف اس کا مرتفع ہوجاوے گا اور وہ حدیث اس حدیث کی شاہد و متابع قوی سمجھی جائے گی۔ کیونکہ جب مجموعہ چند احادیث ضعیفہ کا بسبب تعدد طرق نزدیک بعض علما کے درجہ حسن کو پہنچ جاتا ہے، تو اب اس حدیث کو بدرجہ اولیٰ تقویت حاصل ہوگی، اس لیے کہ اس باب آمین بالجہر میں جو احادیث کہ مروی ہیں ، اگرچہ بعض ان میں ضعیف از روئے سند کے ہیں ، مگر اکثر ان میں صحیح و قوی ہیں ، پھر اب اس کی تقویت میں کیا کلام رہا؟
دیکھو! کہا شیخ عبدالحق دہلوی رحمہ اللہ نے رسا لہ اصولِ حدیث میں :
’’الاحتجاج في الأحکام بالخبر الصحیح مجمع علیہ، وکذلک بالحسن لذاتہ عند عامۃ العلماء، وھو ملحق بالصحیح في باب
|