Maktaba Wahhabi

332 - 702
سے حدیث نہیں سنا، بلکہ یہ کہتے ہیں کہ میں نے ان کو بروایتِ علی حدیث بیان کرتے نہیں سنا، پس اس میں محمد بن مثنی نے نفی سماعت اپنی کی بیان کی نہ یہ کہ نفی سماعت عبد الرحمن کی علی بن صالح سے۔ ہدایۃ ا لنحو کا پڑھنے والا بھی سمجھے گا کہ یہ عبارت یعنی : ’’قال محمد بن مثنی: ما سمعت عبد الرحمن بن مھدی یحدث عن علی بشيء‘‘ میں محمد بن مثنی کے قول کا مقولہ کیا ہے اور لفظ ’’ما سمعت‘‘ میں جو ضمیر متکلم کی ہے، اس کا متکلم کون ہے ؟ بھلا جو شخص اس قدر بھی نہیں سمجھ سکتا ہے، وہ تنقیدِ حدیث کیا کر سکتا ہے؟ یہ بیان معترض صاحب کی استعداد علمی کا ہوا، اب اس کی چالاکی اور بہادری کو دیکھیے کہ میزان الاعتدال کے اوپر کی عبارت یعنی: ’’قال محمد‘‘ سے ’’عن علي بشيء‘‘ تک نقل کیا اور اس کے بعد ذہبی کی عبارت جو یہ ہے: ’’قلت: لا یدل ھذا علی قدح‘‘ [ یہ جرح پر دلالت نہیں کرتا ہے] اس کو چھوڑ دیا اور یہ نہیں سمجھا کہ جو میزان الاعتدال کی طرف مراجعت کرے گا، وہ اس عبارت کو دیکھے گا اور معلوم کرے گا کہ محمد بن مثنی کی نفی سماعت علی بن صالح کی قدح پر دلالت نہیں کرتی ہے۔ پس جبکہ عبد الرحمن بن مہدی سے ان کی تضعیف ثابت نہیں ہوئی، بلکہ ابن معین و احمد بن حنبل و نسائی سے ان کی توثیق ثابت ہوئی تو اب یہ حدیث بہت صحیح و قوی ٹھہری۔ اور مجرد آپ کے خیالات کا سدہ سے تو سب حدیثیں صحیح بھی ضعیف ہو جائیں گی، کیونکہ ہر حدیث صحیح پر احتمال ضعف جاری ہو سکتا ہے اور اس صورت میں دین میں بڑی بڑی خرابیاں واقع ہوں گی۔ أعوذ باللّٰه من ھذا الصنیع السوء ومن وسواس الشیطان الرجیم۔ الحمد للہ کہ ثقاہت علی بن صالح کی ثابت ہوئی۔ اب باقی رواۃ جو اس حدیث میں ہیں ، ان کے احوال کو بھی بیان کردیتا ہوں ، تاکہ ہر کس کو اس حدیث کی صحت پر پورے طور پر وثوق حاصل ہو جائے۔ تو معلوم کرنا چاہیے کہ اول راوی اس کا ’’مخلد بن خالد الشعیری‘‘ ہے۔ کہا خلاصہ میں : ’’مخلد بن خالد الشعیري أبو محمد العسقلاني ثم الطرسوسي عن
Flag Counter