[ علی بن صالح بن حی ہمدانی، ابو محمد کوفی، حسن کے بھائی، ثقہ اور عابد ہیں ۔ ختم شد]
اور کہا علامہ صفی الدین احمد بن عبد اللہ الخزر جی الانصاری نے ’’خلاصۃ تذہیب تہذیب الکمال في أسماء الرجال‘‘ میں :
’’علي بن صالح بن صالح بن حي الھمداني أبو محمد الکوفي، عن سلمہ بن کھیل وسماک ومنصور، وعنہ ابن نمیر و وکیع و أبونعیم، وثقہ أحمد وابن معین۔ قال ابن المدیني: لہ نحو ثمانین حدیثاً‘‘[1] انتھی
[علی بن صالح بن صالح بن ہمدانی ابو محمد کوفی، سلمہ بن کہیل، سماک اور منصور سے روایت کرتے ہیں اور ان سے ابن نمیر، وکیع اور ابو نعیم روایت کرتے ہیں ۔ احمد اور ابن معین نے ان کی توثیق کی ہے۔ ابن المدینی نے کہا ہے کہ ان کی تقریباً اسّی حدیثیں ہیں ۔ ختم شد]
اور معترض نے جو حوالہ میزان الاعتدال کا دے کر اس کا ترجمہ کیا ہے، اس میں اس نے اپنی خیانت اور لیاقت علمی ظاہر کی ہے۔ دیکھو! اصل عبارت میزان الاعتدال کی یہ ہے :
’’وقال محمد بن مثنی: ما سمعت عبد الرحمن بن مھدي یحدث عن علي بشيء۔ قلت: لا یدل ھذا علی قدح‘‘ انتھی
[محمد بن مثنی نے کہا ہے کہ میں نے عبدالرحمان بن مہدی کو علی کے واسطے سے کوئی چیز بیان کرتے نہیں سنا۔ میں (امام ذہبی) نے کہا کہ یہ چیز کسی جرح پر دلالت نہیں کرتی۔ ختم شد]
اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ محمد بن مثنی جو شاگرد عبد الرحمن بن مہدی کے ہیں ، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبد الرحمن کو علی سے روایت کرتے ہوئے نہیں سنا۔ پس اس سے ضعف علی بن صالح کا کہاں ثابت ہوا؟ کیونکہ محمد بن مثنی اپنے علم کی نفی کرتے ہیں کہ میں نے عبدالرحمن کو بروایتِ علی حدیث بیان کرتے ہوئے نہیں سنا، اور محمد بن مثنی نے یہ نہیں کہا ہے کہ عبدالرحمن بن مہدی نے علی بن صالح کی حدیثوں کو ساقط الاحتجاج سمجھا ہے، اس لیے روایت ان سے نہیں کی۔
اور معترض نے اس عبارت کا ترجمہ یوں کیا کہ ’’کہا محمد بن مثنی نے کہ نہیں سنا عبدالرحمن نے علی سے حدیث بیان کرتے ہوئے کوئی شے۔‘‘ حالانکہ محمد بن مثنی یہ نہیں کہتے ہیں کہ عبدالرحمن نے علی
|