Maktaba Wahhabi

329 - 702
أقول: جب آپ مقر ہوئے تو اور کسی کا اقرار یا انکار کب فائدہ اور نقصان دے گا؟ اور خصم سے آپ ایسی حدیث طلب کرتے ہیں ، کچھ اپنی بھی خبر ہے؟ تہذیب مانع ہے۔ کیا عرض کروں ۔ فافھم ولا تکن من القاصرین! قولہ: گیارہ حدیث مسمی عبد الغفور الخ۔ أقول: اس بیچارے کے پاس سوائے حدیث کے کون گواہ عادل تھا جو پیش کرتا؟ منیۃ قنیۃ کو تو وہ گواہ عادل نہیں جانتا تھا۔ خیر جناب! اب کی ۔ان شاء اللہ تعالیٰ۔ ایسے گواہ، جن سے آپ کی تسکین ہو، پیش کیے جائیں گے، یعنی کلام محقق حنفیہ شیخ ابن الہام اور علامہ ابن امیر حاج اور شیخ عبدالحق دہلوی اور مولانا عبد ا لعلی لکھنوی کا۔ اب آپ کو اختیار ہے کہ ان سب پر بھی جرح کیجیے۔ قولہ: اور کسی حدیث کے سلسلہ سند کو بیان نہیں کیا، صرف اخیر راوی کا نام لیا۔ أقول: اے جناب ! یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ آپ ذرا مشکوۃ کو ملاحظہ فرمائیے، اس میں ایسا ہی صاحب مشکوٰۃ نے کیا ہے، اس بچارے پر کیا الزام ہے ؟ خدا کے واسطے ذرا بھی تو انصاف فرماتے!! قولہ: اس پر طرہ یہ کہ بخاری مسلم کی اس میں سے کوئی حدیث نہیں ۔ أقول: کسی ذی علم نے یہ دعویٰ نہیں کیا ہے کہ انحصار احادیث صحیحہ کا صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ہے، بلکہ یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ صحیحین میں جتنی احادیث ہیں وہ سب بلا شبہ صحیح ہیں ۔ پس اگر حدیث : (( مد بھا صوتہ )) [1] [آمین کہتے ہوئے اپنی آواز کو کھینچا] صحیحین میں نہیں ہے تو یہ اس کے موجب قدح کا نہیں ہے۔ دیکھیے ا مام بخاری نے خو د اس کی تصحیح کی ہے، جیسا کہ اس کا بیان آگے آئے گا۔ اور بالفرض اگر وہ حدیث صحیحین میں بھی ہوتی تو کیا آپ اس پر عمل کرتے ؟ ہرگز نہیں ۔ رفع الیدین، جو صحیحین کی اور تمام کتبِ حدیث کی روایت ہے، کیا اس پر عمل کرتے ہیں ؟ قولہ: حدیث او ل ابو داود: ’’حدثنا مخلد بن خالد الشعیري ثنا ابن نمیر ثنا علي بن صالح عن سلمۃ ابن کھیل عن حجر بن عنبس عن وائل بن حجر أنہ صلی
Flag Counter