أقول: کیوں صاحب! ہمارے گیارہ شاہد عادل تو مقبول نہ ہوں اور طرف ثانی استحسان و ’’اِسْتَحَبَّہُ الْعُلَمَائُ‘‘ پر کامیاب ہو ؟ واہ! انصاف ہو تو ایسا ہو۔ زیادہ کیا عرض کروں ؟ فھم من فھم!
عبدالغفور نے یہ تصور کیا کہ طرف ثانی کے پاس گواہ ضعیف اور ہمارے گیارہ گواہ عادل متفق اللفظ ہیں ۔ ان کی گواہی کافی ہے، زیادہ گواہ سنانا تضییع اوقات عدالت والا ہے۔ بنا بر اسی قدر پر اکتفا کیا ہوگا، نہ اس وجہ سے جو آپ نے: { رَجْمًام بِالْغَیْبِ} [الکھف: ۲۲] فرمایا، کیونکہ دس گواہ باقی بھی اسی قسم کے عادل ہیں ۔
قولہ: ان احادیث پر جرح و قدح کر کے ان کے دعوائے جہر کو توڑ دیا۔
أقول: آپ تو وکیل ہی طرف ثانی کے ٹھہرے۔ کیسے ہی سچے گواہ ہوں گے، آپ تو جرح و قدح کریں گے، تاکہ موکل راضی رہے۔ باقی اس جرح کا مقبول و مردود ہونا آگے معلو م ہوگا۔ ابھی سے یہ حکم آپ کا کہ مصداق ’’آنچہ در شکم و نامش مظفر‘‘[1] کا بنتا ہے۔
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
قولہ: اس لیے میں مشرق سے لے کر مغرب تک کے تمام غیر مقلدوں کو اشتہار دے کر مطلع کرتا ہوں ۔
أقول: آپ کو تو فقط ایک ضلع ماتحت کی وکالت کا پاس ہے اور ہائی کورٹ کے امتحان میں آپ فیل ہیں ۔ پس تمام عدالتوں میں جانے کے کہاں مجاز؟ اے جناب! مدت ہوئی کہ اشتہار جاری ہوئے، آخر فیصلہ ہوگیا۔ آپ فقط خاص ایک ضلع ماتحت کے وکیل ہیں ، آپ کو نہیں معلوم ہوا ہوگا، آپ عدالت ما فوق سے دریافت فرمائیں ، معلوم ہوجائے گا۔ میں سابق میں تحریر کرچکا ہوں کہ فیصلہ ہوچکا، اب اجرائے ڈگری کی نوبت ہے، اب عذر داری سے کام نہیں چلتا۔
قولہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ دم آخر تک نماز میں آمین کو پکار کر کہتے تھے ۔۔۔ الخ۔
أقول: اے جناب! مقدمہ آمین بالجہر میں تو باقرار بڑے بڑے علما حنفیہ کے اہل حدیث نے ڈگری حاصل کی ہے، جیسا کہ میں گزارش کرچکا، اب طرف ثانی کا ثبوت طلب کرنا بے فائدہ ہے۔ فرض کیجیے کہ خصم آپ کا ثبوت نہ لا سکتا تھا، لیکن جب دعوے کا اقرار ہوگیا تو اب چون و چرا فضول ہے۔ آپ کسی مداری اور سلاری کے اِغوا میں آگئے، خود تدبر فرمائیے۔ اور آپ کو معلوم نہیں کہ عدالت کا حکم جب ایک دفعہ کسی امر میں صادر ہو گیا تو تافسخ ہمیشہ اسی حکم کی پابندی کرنی
|