کیا، تامابین رطب یا بس کے فرق کریں ، اور معلل اور جارح کو جانچیں کہ کس مرتبہ کا ہے، اور اصل کو نقل سے جدا رکھیں ، اور جو لوگ اصل تمسک کو بوجہ رکیک برعایت اپنے مقتدا کے جعلی قرار دیں اور جعلی کو اصل، ان کے اس کید کو دفع کریں ، اور جو لوگ اپنے رائے سے کچھ کہیں اس کو رد کریں ۔ بخلاف امم سابقہ کے کہ وہاں یہ سلسلہ سند کا نہ تھا،چھان بین نہ تھی، یاروں نے خوب اپنا کام کیا، آخر اصلی اور جعلی میں خلط ملط ہوا اور بمقتضائے وسواسِ شیطان سوئِ ادب سمجھ کر پچھلوں نے اگلوں کی خطا کو خطا تصور نہ کیا، بلکہ جہاں خطا بیّن تھی، وہاں اور پردہ پوشی کی اور سلسلہ جرح و تعدیل اور رد و قدح کا جاری نہ ہوا، بلکہ خطا کے مقلد ہوگئے، آخر اصل تمسک ناپید ہوا اور دین نبی علیہ السلام گم ہوگیا۔ یہی وجہ سارے ادیان کے بگڑنے کی ہوئی، چنانچہ نمونہ اس کا تورات و انجیل مطبوعہ قدیم اور جدید کے دیکھنے سے یہ بات ظاہر ہے۔
سو الحمدللہ اس دین محمدی میں یہ سلسلہ جرح و تعدیل اور رد و قدح کا جاری رہا اور صحیح سقیم میں وہ علماء نقادین تمیز کرتے رہے، اس سبب سے اصل اپنے حال پر رہا، یاروں کی کارستانی نہ چلی۔ جب ایک مولوی نے کوئی بات کہی تو دوسرے نے اس کو اصل معیار حق پر جانچا، اگر خطا معلوم ہوئی فوراً اس پر لے دے کردی اور صواب خطا سے ممتاز رہا، اور ’’خذ ما صفا ودع ماکدر‘‘ پر ان نقادین کا عمل رہا۔
اور صحیح معنی ’’اختلاف العلماء رحمۃ‘‘ اور ’’خطائے بزرگان نبایدگرفت‘‘ کے مرکوز خاطر عام مسلمین مہتدین کے ہوا، یعنی علماء کے رد و بدل کھرے کھوٹے میں بلامزد محنت تمیز ہوئی اور کیدِ کیّاد کھل گیا، یہ رحمت اللہ تعالیٰ کی ہے اور بزرگوں کی خطا کو تمسک نہ پکڑنا چاہیے۔ نہ وہ معنی کہ ہر اقوال مختلفہ میں خطا ہو یا صواب رحمت ہے اور بزرگوں کی خطا کو خطا نہ تصور کر نا چاہیے، کیونکہ یہی وجہ تو امم سابقہ کے بگڑنے کی ہوئی ہے، جس کے قلع قمع کے واسطے نبی آخر الزمان علیہ الصلوۃ و السلام مبعوث ہوئے اور قرآن نازل ہوا اور سند کا سلسلہ جاری ہوا اور جرح و تعدیل اور تمیز صحیح سقیم مسلک علماء اخیار ٹھہرا۔
بعد اللتیا واللتی: بقول شخصے ’’چور چوری سے گیا، کیا ہیرا پھیری سے بھی گیا؟‘‘ شیطان تو اس کید قدیم کو لوگوں کی خاطر نشین کرتا پھرتا ہے اور علماء حقانی اس کید کا قلع قمع کرتے چلے آتے ہیں ، تاہم اکثر نفوس میں وہ کید جاگزیں ہے، بدیں لحاظ اکثر خواص و عوام کے زبان زد ہو رہا ہے کہ اس پر عمل کرنا عین اس پر عمل کرنا ہے اور یہ طریقہ قدیم ہے، نبی آخر الزمان کے پہلے سے یوں ہی
|