چلا آیا ہے اور کھرے کھوٹے میں تمیز کرنا مذہب جدید ہے۔ اور اتنا نہ خیال کیا کہ یہ طریقہ اگرچہ باعتبار اس کید کے جدید ہے، لیکن ایسے شخص کا طریقہ ہے کہ جس کے سبب سے تمام ادیان سابقہ حقہ منسوخ ہوگئے، چہ جائے کہ کید باطل بالذات اسی کے مٹانے کو تو نبی آخرالزمان مبعوث ہوئے ہیں ، پس اس وسواس میں پڑ کر اصل تمسک باضابطہ قرآن مجید اور حدیث رسول حمید کو چھوڑ بیٹھے، بلکہ برعایت مذہب اپنے مقتدا کے اصل باضابطہ میں کھوٹ نکالنے کے درپے ہوئے اور یوں کہنے لگے کہ کون حدیث ہے جو مجروح نہیں ہے؟ اور مقولہ مقتدا بلا جرح موجود ہے، پس انھوں نے اصل تمسک کو تابع اور جعلی قرار دیا اور بے اصل کو متبوع اور اصل۔ جہاں کوئی حدیث پیش نظر ہوئی تو فکر کرنے لگے کہ آیا یہ ہمارے مقتدا کے مقولہ کے مطابق ہے یا نہیں ؟ اگر مطابق ہوئی تو خیر درجہ تابع میں رہی، وإلا مردود ہوئی اور مقتدا کے قول پر اڑگئی، بلکہ اس پر اکتفا نہ کرکے غضب یہ کیا کہ حدیث کی بیخ کنی کے پیچھے پڑے، بقول شخصے ’’ نہ رہے بانس نہ بجے بانسلی ‘‘ اور یہ خیال نہ کیا کہ امم سابقہ اسی چال سے خراب ہوئے۔
اور اس زمانہ میں اگر غیر ملت والے سے مناظرہ اور مذاکرہ پڑے تو کیو ں کر حقیقت اپنے مذہب کی ثابت کریں ؟ مخالف تو اصل تمسک کو طلب کرے گا، نقل سے اس کی تسکین خاطر نہ ہوگی، بلکہ مخالف وقت فقدانِ اصل الاصول کے غالب آئے گا۔ لنعم ما قیل:
’’بیوقوف دوست سے عقلمند دشمن بھلا‘‘۔ إنا للّٰه وإنا إلیہ راجعون۔
اب ان دنوں ایک رسالہ ’’القول المتین في إخفاء التامین‘‘ جو واقع میں انھیں کیدوں کی بنا پر مؤلف ہے، نظر سے گزرا اور عجب پر عجب یہ ہوا کہ ایک وکیل محمد علی صاحب مرزا پوری کی تالیف ہے، کجا وکیل صاحب ضلع اور کجا جرح و تعدیل؟ آپ نے معاملات دنیوی کا پاس کرکے قصد کیا کہ عدالت عالیہ میں بھی درخور کرکے وہاں کی بھی سارٹیفیکٹ حاصل کیجیے۔
تو کار زمیں را نکو ساختی کہ بر آسماں نیز پرداختی[1]
اور وکیل صاحب نے وکالت ضلع کا پاس کرکے امور ماتقدم کا لحاظ نہ کیا اور مقولہ حالیہ خدام عدالت عالیہ سے بے خبر!
|