{ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ} [النساء: ۴۸]
’’تحقیق اللہ نہیں بخشتا ہے اس کو جو کہ شریک اس کا پکڑے اور بخشتا ہے شرک کے سوا جس کو چاہے۔‘‘
اور فر مایا:
{ اِنَّہٗ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَ مَاْوٰہُ النَّارُ وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ} [المائدۃ: ۷۲]
’’مقرر جس نے شرک کیا اللہ کا سو حرام کی اللہ نے اس پر جنت اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے اور کوئی نہیں ظالموں کا مدد کرنے والا۔‘‘
اور فرضاً اگر کوئی شخص تعزیہ وغیرہ بہ نیت پرستش و عبادت و تعظیم لغیر اللہ کے نہ بنائے، بلکہ اپنے زعم فاسد میں ماتم حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ قرار دے، یا صرف بنا بر رسم و رواج و طمع دنیاوی کے بناوے، تب بھی گنا ہ کبیر ہ ہونے سے خالی نہیں ۔ اس لیے کہ اگرچہ وہ اس کی پرستش نہیں کرتا، مگر وسیلہ پرستش تو ہے۔ دوسرے جہال اس کی پرستش کریں گے اور خود وہ شخص بدعتیوں میں داخل ہوا، کیونکہ اس طرح پر تمثال و صورت قائم کرکے ماتم کرنا حرام وبدعت ہے، نہ تو ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوا، نہ صحابہ کے زمانوں میں پا یا جا تا۔
صحیح بخاری وغیرہ میں ہے :
’’قال رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم : من أحدث في أمرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد‘‘[1]
’’فرمایا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: جس نے میرے اس دین میں نکالا، وہ چیز جو کہ دین میں نہیں ہے، پس وہ چیز مردود ہے۔‘‘
’’وعن ابن عباس رضي اللّٰه عنھما قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم : أبیٰ اللّٰه أن یقبل عمل صاحب بدعۃ حتیٰ یدع بدعتہ‘‘[2] رواہ ابن ماجہ
|