اور فتح الباری میں ہے:
’’وکانت تماثیل في صور شتیٰ، فامتنع النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم من دخول البیت، وھي فیہ، لأنہ لا یقر علی باطل، ولأنہ لا یحب فراق الملا ئکۃ، وھي لا تدخل ما فیہ صورۃ‘‘[1] انتھی
یعنی تھیں وہ تصویریں مختلف صورتوں کی۔ پس باز آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے داخل ہونے سے در حا لیکہ وہ تصویریں بیت اللہ میں رہیں ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امر باطل پر سکوت نہیں فرماتے اور اس سبب سے کہ آپ نہیں دوست رکھتے فرشتوں کی جدائی کو، اور فرشتے نہیں داخل ہوتے اس جگہ جہاں تصویر ہو۔
پس جس جگہ تعزیہ وغیرہ صورت ذی جان کی ہو، وہاں فرشتے نہیں آتے ہیں ۔ تمامی ممالک ہند وغیرہ میں جہاں جہاں تعزیہ داری ہوتی ہے، ہزاروں در ہزار آدمی شرک میں گرفتار رہتے ہیں ، کوئی اس کو سجدہ کرتا ہے، کوئی اولاد اس سے چاہتاہے، کوئی ترقی مال و دولت، کوئی صحت مریض، کوئی کچھ اور، کوئی کچھ اور۔ ایسی عظمت و تعظیم جو خاص واسطے باری تعالیٰ کے لائق ہے، کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ذرا سا بے ادبی کرنے میں قہر و بلا ناز ل ہونے لگے گی۔ اب اے غافل لوگ تم سب متنبہ اور ہوشیار ہو جاؤ کہ تم لوگ کیسے گناہ عظیم میں مبتلا ہو، ہوشیار ہوجاؤ۔ دیکھو اللہ تبارک تعالیٰ فرماتا ہے:
{ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ} [الفاتحۃ: ۵]
یعنی تجھ ہی کو پوجتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں ۔
حصر ہے ایاک نعبد نستعین استعانت غیر سے لائق نہیں
اور فر مایا:
{ فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ اَنْدَادًا وَّ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ} [البقرۃ: ۲۲]
’’پس نہ ٹھہراؤ اللہ کے ساجھی اور تم جانتے ہو کہ اللہ کے برابر کوئی نہیں ہے۔‘‘
اور فرمایا:
{ وَ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا} [النساء: ۳۶]
|