’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اور وہ بطحا ء میں تھے، کہ جائیں کعبہ میں اور مٹا دیں تصویروں کو جو وہاں ہوں ، پس نہ داخل ہوئے رسول اللہ کعبہ میں یہاں تک کہ صورتیں مٹادی گئیں اور جو صورتیں ذی جسم تھیں ان کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے باہر نکالا۔‘‘
کہا حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں :
’’والذي یظھر أنہ محا ما کان من الصور مدھونا مثلا، و أخرج ما کان مخروطاً‘‘[1]
ترجمہ: ’’سب روایتوں کو ملانے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ جو صورتیں منقش کی ہوئی تھیں ان کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مٹا دیا اور جو تراش کے بنائی گئی تھیں ، یعنی ذی جسم تھی، اس کو باہر نکال دیا۔‘‘
’’وأخرج أبو داود الطیالسي عن أسامۃ بن زید قال: دخلت علی رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم في الکعبۃ فرأی صورا فدعا بدلو من ماء فأتیتہ بہ، فضرب بہ الصور، وسندہ جید‘‘[2]
’’کہا اسامہ نے: گئے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کعبہ میں ، پس دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی صورتیں ، پس ایک ڈول پانی مانگا، ہم نے لا دیا، پس پانی چھینٹا آپ نے ان صورتوں پر۔ اس کی سند جید ہے۔‘‘
پس جب وہ تصویریں جن میں تصویر حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہم السلام کی بھی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی نہیں رکھیں ، بلکہ تصویریں ذی جسم کو توڑ دیا اور ذی نقش کو پانی سے دھودیا، پس اب تعزیہ کے توڑ دینے میں کسی قسم کا تردد و شک و شبہ باقی نہیں رہا، کیونکہ ان تصویروں کی پرستش ہوتی تھی، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو توڑا اور مٹا دیا۔ وہی وجہ بعینہ تعزیہ میں بھی موجود ہے، اور قطع نظر پرستش کے، جس گھر میں تصویر ذی روح کی رہتی ہے، وہاں فرشتے رحمت کے نہیں آتے ہیں ، جیسا کہ تمام کتبِ احادیث اس سے مالا مال ہیں ۔[3]
|