کے ہے چوتھائی اس چیز کی کہ چھوڑ جاؤ تم اگر نہ ہو واسطے تمھارے اولاد پس اگر ہو واسطے تمھارے اولاد پس واسطے ان کے آٹھواں حصہ ہے اس چیز کا کہ چھوڑ جاؤ تم پیچھے وصیت کے کہ وصیت کرجاؤ تو تم ساتھ اس کے یا قرض کے]
ان سب کا حصہ بیان فرمانے کے بعد قطعی طور پر ارشاد فرمایا:
{ تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا وَ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ} [النساء: ۱۳]
[ یہ ہیں حدیں اللہ کی اور جو کوئی کہا مانے اللہ کا اور رسول اس کے کا۔ داخل کرے گا اس کو بہشتوں میں چلتی ہیں نیچے ان کے سے نہریں ہمیشہ رہنے والے بیچ اس کے اور یہ ہے مراد پانا بڑا]
{ وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ یُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِیْھَا وَلَہٗ عَذَابٌ مُّھِیْنٌ} [النساء: ۱۴]
[اور جو کوئی نافرمانی کرے اللہ کی اور رسول اس کے کی اور گزر جاویں حدوں اس کی سے، داخل کرے گا اس کو آگ میں ہمیشہ رہنے والے بیچ اس کے اور واسطے ہے اس کے عذاب ذلیل کرنے والا]
یہاں پر قرآن شریف کا لطافتِ بیان بھی قابل غور ہے کہ چونکہ عام طرح پر کفار و مشرکینِ مکہ عورتوں کو میراث سے محروم سمجھتے تھے اور یہ باطل خیال ان کے دماغ میں پیوستہ تھا، اس لیے پہلے اللہ جل شانہ نے اپنے قادر مطلق ہونے کا بیان فرمایا کہ ایسی قدرت واسعہ والے کا حکم بغیر قبول کیے ہوئے چارہ نہیں ہے۔ اس کے بعد نہایت خوبی اور لطافت کے ساتھ لوگوں کے دماغ کو اس باطل خیال سے اس طرف متوجہ فرمایا کہ جب ہر مرد و عورت کی اصل خلقت ایک نفس سے ہے تو فطرت سلیمہ اور عدل و انصاف کے نزدیک کیوں کر یہ قابل تسلیم ہوسکتا ہے کہ اس کی ایک جزو ذکور کو مستحق میراث قرار دیا جاوے اور دوسرا جزو یعنی اناث بالکل محروم کردیا جائے۔ اس کے بعد اجمالی طور پر حکم صادر فرمایا کہ جس طرح میراث میں ذکور مستحق ہیں ، اسی طرح سے عورتیں بھی مستحق ہیں ۔ پھر اس اجمال کی تفصیل فرمائی اور ہر ہر شخص ذکور و اناث کے حصے مقرر فرما دیے۔ اس کے بعد آخر میں فرمایا
|