[اور ’’بلوغ المرام‘‘ کی شرح ’’سبل السلام‘‘ میں ہے: یہ تلاوت کا نسخ ہے نہ کہ حکم کا ۔ الخ]
وفي الروضۃ الندیۃ شرح الدرر البھیۃ للعلامۃ البوفالي المرحوم: ’’ویجوز بقاء الحکم مع نسخ التلاوۃ کالرجم في الزنا، حکمہ باق مع ارتفاع التلاوۃ في القرآن‘‘[1]
[’’الروضۃ الندیۃ‘‘ میں ہے: تلاوت کے نسخ کے باوجود حکم کا باقی رہنا جائز ہے،جیسے زنا کے سلسلے میں آیت رجم ، جس کا حکم تو باقی ہے، لیکن قرآن میں اس کی تلاوت مرتفع ہوگئی ہے]
وفي زاد المعاد للعلامۃ ابن القیم: ’’وغایۃ الأمر أنہ قرآن نسخ لفظہ، وبقي حکمہ فیکون لہ حکم قولہ: ’’الشیخ والشیخۃ إذَا زنیا فارجموھما‘‘ مما اکتفی بنقلہ آحاد، وحکمہ ثابت، وھذا مما لا جواب عنہ‘‘[2]
[علامہ ابن القیم کی ’’زاد المعاد‘‘ میں ہے کہ غایت الامر یہ ہے کہ وہ قرآن ہی کا حصہ ہے، جس کا لفظ تو منسوخ ہے لیکن حکم باقی ہے۔ جیسا کہ یہ قول ہے کہ بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت جب زنا کا ارتکاب کریں تو ان دونوں کو سنگسار کردو۔ اس سلسلے میں خبر آحاد پر اکتفا کیا جائے گا اور اس کا حکم ثابت ہے اور یہ وہ حکم ہے جس کا کوئی جواب نہیں ]
وفي حصول المأمول من علم الأصول للعلامۃ البوفالي المرحوم: ’’الرابع: ما نسخ حکمہ و رسمہ، ونسخ رسم الناسخ، و بقي حکمہ، کما ثبت في الصحیح عن عائشۃ رضی اللّٰه عنہا أنھا قالت: کان فیما أنزل عشر رضعات متتابعات یحرمن فنسخ بخمس رضعات فتوفي رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم وھن فیما یتلی من القرآن، قال البیھقي: فالعشر مما نسخ رسمہ، و حکمہ، و الخمس نسخ رسمہ، و بقي حکمہ، بدلیل أن الصحابۃ حین جمعوا القرآن لم یثبتوھا رسما، وحکمھا باق عندھم‘‘[3] الخ
|