Maktaba Wahhabi

254 - 702
[نیل الاوطار میں ترجیح معنی حدیث ایک باب میں ذکر کی ہے اور مخالفین کے اعتراضات کا شافی جواب دیا ہے۔ اور راقم سطور نے بھی ان ساری بحثوں کو ایک رسالہ ’’إفادۃ الشیوخ بمقدار الناسخ و المنسوخ‘‘ میں تحریر کیا ہے ۔پس ا س کا مر ا جعہ کریں ] اس مقام پر بعض بعض اشخاص کا اعتراض بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت بالا پر اس طرح ہے کہ اس میں اس قسم کے الفاظ ہیں : ’’فیما أنزل من القرآن عشر رضعات معلومات یحرمن، ثم نسخن بخمس معلومات فتوفي رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم وھو فیما یقرأ‘‘ [قرآن میں دس معلوم رضعات (والی آیت) نازل کی گئی تھی، جن سے حرمت ثابت ہوجاتی ہے، پھر وہ دس رضعات منسوخ کردی گئیں پانچ معلوم (رضعات) سے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے اور وہ علی حالہ باقی رہا جیسا کہ پڑھا جاتا ہے] حالانکہ قرآن مجید میں اس قسم کے الفاظ نہیں پائے جاتے ہیں ۔ سو جواب اس اعتراض کا یہ ہے: ’’والنسخ ثلاثۃ أنواع: أحدھا ما نسخ حکمہ وتلاوتہ، والثاني ما نسخت تلاوتہ دون حکمہ، کخمس رضعات، وکالشیخ والشیخۃ إذا زنیا فارجموھما۔۔۔ الخ‘‘ ھکذا في شرح صحیح مسلم للنواوي رحمہ اللّٰه ، وعون المعبود شرح سنن أبي داود للعلامۃ الفہامۃ شیخنا عظیم آبادي دام فیضہ۔[1] [ نسخ کی تین قسمیں ہیں ، ایک یہ ہے کہ اس کا حکم اور تلاوت منسوخ ہوگئے اور دوسرا جس کی تلاوت منسوخ ہوگئی اور حکم باقی رہا جیسے خمس رضعات یعنی پانچ رضعات، اور جیسے ’’الشیخ والشیخۃ إذا زنیا فارجموھما‘‘ یعنی بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت جب زنا کریں تو دونوں کو رجم کر دو۔ ایساہی نووی کی صحیح مسلم کی شرح میں ہے اور سنن ابو داود کی شرح عون المعبود میں ہے جو علامہ فہامہ شیخنا عظیم آبادی دام فیضہ کی تصنیف ہے] وفي سبل السلام شرح بلوغ المرام: ’’وھذا من نسخ التلاوۃ دون الحکم الخ‘‘[2]
Flag Counter