[رضاعت کا بیان۔ اس کا حکم پانچ چسکیوں سے ثابت ہوتا ہے، عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کی بنیاد پر جس کی روایت مسلم وغیرہ نے کی ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا ہے کہ قرآن میں دس معلوم چسکیوں والی آیت نازل کی گئی تھی، جن سے حرمت ثابت ہوجاتی ہے، پھر پانچ چسکیوں والی آیت نازل ہوئی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے اور (وہ پانچ چسکیوں والی آیت قرآن میں باقی رہ گئی) جس کی قرآن میں تلاوت کی جاتی ہے۔ صحیح میں حدیث کے متعدد طرق ثابت ہیں اور ان کی مخالفت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وہ حدیث نہیں کرتی ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک چسکی اور دو چسکی سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ اس کی تخریج احمد ، مسلم اور اہل سنن نے کی ہے۔ اسی طرح ام فضل کی حدیث مسلم وغیرہ کے نزدیک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک کلا یا دو کلا اور ایک چسکی اور دو چسکی سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ ایک لفظ ہے کہ املاجہ اور دو املاجہ سے بھی حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ اور اسی طرح کی تخریج احمد ، نسائی ، ترمذی نے عبداللہ بن زبیر کی حدیث سے کی ہے۔ کیونکہ ان تمام احادیث کا مقصود، ایک چسکی، دو چسکی ایک کلہ دو کلہ، ایک املاجہ اور دو املاجہ حرمت ثابت نہیں کرتیں ۔ ان احادیث کا منطقی معنی یہی ہے اور یہ احادیث پانچ رضعات والی حدیث کی مخالفت نہیں کرتیں ، کیونکہ اس سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ پانچ سے کم میں حرمت ثابت نہیں ہوتی اور ان احادیث کا مفہوم کے اعتبار سے معنی یہ ہے کہ ایک یا دو کلے سے زیادہ رضاعت سے حرمت ثابت ہوجاتی ہے۔ پانچ والی حدیث محکم ہے اور یہ زیادہ پر مشتمل ہے۔ اس لیے اس کا قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا واجب ہے۔ خاص طور سے اس قول کی بنا پر کہ تنکیر پر فعل کی بنیاد تخصیص کا فائدہ دیتی ہے]
اور صحیح مسلم کی حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کے تحت میں ’’مسک الختام‘‘ میں ہے:
’’و در نیل الاوطار نیز ترجیح مفاد حدیث باب کردہ ، و از ایراد مخالفین اجوبہ شافیہ گفتہ، و محرر سطور تمام ایں بحث در رسالہ ’’إفادۃ الشیوخ بمقدار الناسخ و المنسوخ‘‘ نوشتہ۔‘‘[1] فلیراجع۔
|