Maktaba Wahhabi

215 - 702
الولي في ھذہ الحال یمنع النکاح بالکلیۃ ‘‘[1] انتھی کلامہ [پس اگر کوئی بھی نہ ہو، یعنی کوئی قریبی نسبی رشتے دار ولی، اس علاقے کا سلطان اور اس کا نائب جہاں کہ وہ آزاد عورت رہتی ہے، تو اس کی شادی اس کے علاقے کا کوئی صاحب اقتدار شخص کراسکتا ہے، جیسے کہ اس کے اولیا کا انکار کردینا ، امام کا نہ پایا جانا یا اس کے نائب کا موجود نہ ہونا۔ عضل شادی کرانے سے رک جانے کو کہتے ہیں اور اس حال میں ولی کی شرط نکاح کو بالکلیہ روک دیتی ہے۔ کلام ختم ہوا] اور ’’رحمۃ الأمۃ‘‘ میں ہے: ’’فإن کانت المرأۃ في موضع لیس فیہ حاکم، ولا ولي، فوجھان: أحدھما تزوج نفسھا، والثاني: أنھا ترد أمرھا إلی رجل من المسلمین یزوجھا‘‘ انتھی [پس اگر عورت ایسی جگہ میں ہے جہاں حاکم ہے نہ ولی، تو دو صورتیں ہیں ، ایک یہ کہ وہ اپنی شادی خود کرلے اور دوسری یہ کہ اپنا معاملہ مسلمانوں میں سے کسی کے سپرد کردے جو اس کی شادی کرا دے۔ ختم شد] اب رہا یہ امر کہ نکاح میں شہادت عورت کی جائز ہے یا نہیں اور ایک و دو عورت اس کے لیے کافی ہیں یا نہیں ؟ پس شافعی و امام احمد کے نزدیک شہادت عورتوں کی نکاح میں جائز نہیں ہے۔ ’’کشاف القناع في فقہ الحنابلۃ‘‘ میں ہے : ’’الشرط الرابع: الشہادۃ علی النکاح، فلا ینعقد النکاح إلا بشاھدین مسلمین عدلین ذکرین، لما روی أبو عبید في الأموال عن الزھري أنہ قال: مضت السنۃ أن لا یجوز شھادۃ النساء في الحدود، ولا في النکاح، ولا في الطلاق‘‘[2] انتھی [چوتھی شرط نکاح کی گواہی ہے۔ نکاح دو مسلمان عادل مرد گواہوں کے بغیر منعقد نہیں ہوتا ہے، جیسا کہ ابو عبیدہ نے ’’الأموال‘‘ میں زہری کے واسطے سے روایت کیا ہے۔
Flag Counter