اور بھی ’’مغني المحتاج‘‘ میں ہے:
’’وکذا یزوج السلطان إذا عضل النسیب القریب، وإنما یحصل العضل من الولي إذا دعت بالغۃ عاقلۃ إلی کفو، و امتنع الولي من تزویجہ لأنہ إنما یجب علیہ تزویجھا من کفو‘‘[1] انتھی
[اور اسی طرح سے سلطان شادی کراسکتا ہے جب کہ قریبی نسب والا کنارہ کش ہوجائے، عضل یعنی کنارہ کشی ولایت سے اس وقت سمجھی جائے گی جبکہ بالغہ عاقلہ عورت کفو کا مطالبہ کرے اور ولی اس کی شادی کرانے سے گریزاں ہو ، کیونکہ کفومیں اس کی شادی کرانا واجب ہے۔ ختم شد]
اور ’’کشاف القناع‘‘ میں ہے:
’’فإن عدم الولي مطلقاً بأن لم یوجد أحد، أو عضل ولیھا، ولم یوجد غیرہ، زوجہا ذو سلطان في ذلک المکان،کوالي البلد أو کبیرہ أو أمیر القافلۃ ونحوہ، لأن لہ سلطۃ، فإن تعذر ذو سلطان في ذلک المکان زوجھا عدل بادیتھا ‘‘[2] انتھی
[پس بے شک ولی کا مطلق عدم وجود یا اس کے ولی کا کنارہ کش ہوجانا اور اس کے علاوہ کسی کے نہ پائے جانے کی صورت میں اس علاقے کا سلطان اس کی شادی کرا سکتا ہے، جیسے شہرکا والی یا شہر کا کوئی بڑا شخص یا امیر قافلہ وغیرہ، کیونکہ وہ صاحب اقتدار ہے۔ پس اگر اس علاقے کا صاحب اقتدار شخص معذرت کرے تو اس کی شادی اس کی بستی کا کوئی عادل شخص کراسکتا ہے۔ختم شد]
اور ’’شرح منتھی الإرادات‘‘ میں ہے :
’’فإن عدم الکل أي عصبۃ النسب والولاء والسلطان ونائبہ من المحل الذي بہ الحرۃ، زوجھا ذوسلطان في مکانھا، کعضل أولیائھا مع عدم إمام ونائبہ في مکانہ، والعضل الامتناع من تزویجھا۔۔۔، واشتراط
|