Maktaba Wahhabi

213 - 702
[سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: عورت کا نکاح اس کے ولی یا صاحبِ رائے یا سلطان کی اجازت کے بغیر نہیں کیا جائے گا۔ ختم شد] وقال الزرقاني في شرح الموطأ: ’’قال أبو عمر: اختلف أصحابنا في قول عمر ھذا، فقال بعضہم: کل واحد من ھؤلاء یجوّز إنکاحہ إذا أصاب وجہ النکاح من الکفو والصلاح۔ وقال آخرون: علی التریب لا التخییر‘‘[1] انتھی [اور زرقانی نے موطا کی شرح میں کہا ہے: ابو عمر نے کہا کہ ہمارے اصحاب نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول کے بارے میں اختلاف کیا ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے درست قرار دیا ہے کہ وہ اس کا نکاح کرادے، جب وہ نکاح میں ہمسری اور بھلائی کی صورت کا خیال رکھ رہا ہو۔ختم شد] اور ’’مغني المحتاج شرح المنھاج‘‘ میں ہے : ’’أوعدم الولي والحاکم فولت مع خاطبھا أمرھا رجلا مجتھداً، لیزوجھا منہ صح، لأنہ محکم، والمحکم کالحاکم، وکذا لو ولت عدلا صح علی المختار، وإن لم یکن مجتھدا، لشدۃ الحاجۃ إلی ذلک۔ قال في المھمات: ولا یختص ذلک بفقد الحاکم، بل یجوز مع وجودہ سفراً وحضراً، بناء اً علی الصحیح في مجاز التحکیم‘‘[2] انتھی [یا ولی اور حاکم کی عدم موجودگی میں اس کی ولایت کسی مجتہد شخص کی طرف منتقل ہوجائے گی جو اس کے پیغام نکاح دینے والے کے ساتھ اس کی شادی کردے تو یہ شادی درست ہوگی۔ کیونکہ وہ محکم ہے اور محکم حاکم کی طرح ہوتا ہے۔ اسی طریقے سے اگر کوئی عادل ولی ہوجاتا ہے تو بھی صحیح بات یہ ہے کہ یہ نکاح درست ہوگا، اگرچہ وہ مجتہد نہ ہو ، اس بنا پر کہ نکاح کی شدید حاجت ہوتی ہے۔ انھوں نے ’’المھمات‘‘ میں کہا کہ حاکم کی عدم موجودگی سے اسے مختص نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کی موجودگی ہی میں سفر و حضر کی حالت میں جائز ہوگا۔ ختم شد]
Flag Counter