کذا في بلوغ المرام۔[1]
[عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی بھی عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلے تو اس کا نکاح باطل ہے۔ اگر یہ آپس میں جھگڑ پڑیں تو سلطان اس کا ولی ہے، جس کا کوئی ولی نہیں ۔ چاروں نے اس کی تخریج کی ہے سوائے نسائی کے اور ابو عوانہ ، ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ ایسا ہی ’’بلوغ المرام‘‘ میں ہے]
وقال في سبل السلام: ’’قال ابن کثیر: وصححہ یحییٰ بن معین من الحفاظ، والمراد بالاشتجار منع الأولیاء من العقد علیہا، وھذا ھو العضل، وبہ تنتقل إلی السلطان إن عضل الأقرب، قیل: بل تنتقل إلی الأبعد، و انتقالہا إلی السلطان مبني علی منع الأقرب والأبعد، وھو یحتمل أن السلطان ولي من لا ولي لھا لعدمہ، أو لمنعہ، ومثلھا غیبۃ الولي، ثم المراد بالسلطان من إلیہ الأمر‘‘[2] انتھی
[’’سبل السلام‘‘ میں کہا ہے کہ ابن کثیر نے کہا: یحییٰ بن معین جو حفاظ میں سے ہیں ، انھوں نے اس کو صحیح قرار دیا ہے اور اشتجار (جھگڑا) سے مراد اولیا کا اس عورت کا نکاح کرنے سے انکار کرنا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ (ولایت) دور کے اولیا کے پاس منتقل ہوجائے گی اور اس کی ولایت سلطان کے پاس اس وقت منتقل ہوگی جب کہ قریب اور دور کے رشتے دار ولایت قبول کرنے سے انکار کردیں ۔ یہی مطلب ہے (اس حدیث کا) کہ سلطان اس کا ولی ہے جس کاکوئی ولی نہیں ۔ ولی کے نہ ہونے کی صورت میں یا اس کے انکار کرنے کی صورت میں ۔ اس کی مثال ولی کے غائب ہونے جیسی ہے۔ پھر سلطان سے مراد وہ ہے جو امور کا نگران ہو]
اور موطا اما م مالک میں ہے:
’’عن سعید بن المسیب أنہ قال: قال عمر بن الخطاب: لا تنکح المرأۃ إلا بإذن ولیھا أو ذي الرأي أو السلطان‘‘[3] انتھی
|