Maktaba Wahhabi

211 - 702
ولي مسخوط علیہ فنکاحھا باطل، وعدي ضعیف‘‘[1] انتھی [صالح ولی اور دو عادل گواہوں کی اجازت کے بغیر نکاح درست نہیں ہے۔ اس کی تخریج شافعی اور بیہقی نے ابن خثیم کے طریق سے انھوں نے سعید بن جبیر کے واسطے سے موقوفاً کی ہے۔ بیہقی نے کہا ہے اس کو دوسرے طریق سے روایت کرنے کے بعد ابن خثیم کے واسطے سے اسی سند کے ساتھ مرفوعاً ان الفاظ میں کہ نکاح بغیر ولی مرشداور سلطان کے درست نہیں ہے۔ اور کہا ہے کہ محفوظ موقوف ہے ۔پھر اس کو روایت کیا ہے ثوری کے طریق سے ابن خثیم کے واسطے سے اور ابن الفضل کے طریق سے ابن خثیم کے واسطے سے سند مرفوع کے ساتھ ان الفاظ میں : نکاح ولی اور دو عادل گواہوں کے بغیر درست نہیں ہے۔ اگر عورت کے ناراض ولی نے اس کا نکاح اپنی مرضی سے کردیا ہے تو اس کا نکاح باطل ہوگا اور عدی ضعیف ہیں ۔ختم شد ] اور ’’رحمۃ الأمۃ‘‘ میں ہے: ’’ولا ولایۃ للفاسق عند الشافعي وأحمد، و قال أبوحنیفۃ و مالک: الفسق لا یمنع الولایۃ ‘‘ انتھی [امام شافعی اور احمد کے نزدیک فاسق کی ولایت درست نہیں ہے اور امام ابو حنیفہ اور مالک کہتے ہیں کہ فسق ولایت میں رکاوٹ نہیں ] اور اگر فاسق کی ولایت علی رأی بعض الائمہ تسلیم بھی کرلی جاوے تب بھی ولایت اس عورت کی باپ سے منتقل ہوجائے گی، کیونکہ باپ اس عورت کا باعث فسق اپنے کے عاضل ہے، یعنی مانع نکاح ثانی سے ہے اور اس کو برا سمجھتا ہے اور عورت کو ضرورت نکاح کرنے کی ہے، پس اس صورت میں اگر کوئی دوسرا ولی بعید بھی موجود نہ ہو، اگر موجود بھی ہو مگر وہ بھی اجازت نہیں دیتا تو اب وہ عورت ایک مرد دین دار کو اپنا ولی قرار دے کر بہ ولایت اس رجل صالح کے اپنا نکاح کرلے۔ ’’عن عائشۃ رضي اللّٰه عنھا قالت: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم : أیما امرأۃ نکحت بغیر إذن ولیھا فنکاحھا باطل، فإن اشتجروا فالسلطان ولي من لا ولي لھا‘‘ أخرجہ الأربعۃ إلا النسائي، وصححہ أبو عوانۃ وابن حبان والحاکم،
Flag Counter