Maktaba Wahhabi

210 - 702
وباطناً حرج ومشقۃ ‘‘[1] انتھی [ولی کے لیے سات شرطیں ہیں : پہلی یہ کہ وہ آزاد ہو، دوسری یہ کہ وہ مردہو ، تیسری یہ کہ دین ایک ہو ، چوتھی یہ کہ وہ بالغ ہو ، پانچویں یہ کہ وہ عقل وخرد کا مالک ہو اور چھٹی یہ کہ وہ عدل ہو۔ ابن عباس کی روایت کی بنیاد پر کہ نکاح درست نہیں ہے مگر دو عادل گواہوں اور ایک نیک ولی کے ساتھ۔ احمد نے کہا ہے کہ اس سلسلے میں ابن عباس کا قول سب سے درست ہے اور ان سے مرفوعاً مروی ہے کہ بغیر ولی اور دو عادل گواہوں کے نکاح درست نہیں ہے اور جس کسی عورت کا نکاح ناپسندیدہ ولی نے کرادیا تو اس کا نکاح باطل ہے، کیونکہ یہ نظری ولایت ہے ، فاسق اس کا انفراداً مالک نہیں بن سکتا۔ اگر ولی بہ ظاہر عادل ہے تو یہ کافی ہے ، کیونکہ ظاہر و باطن دونوں کی عدالت کی شرط میں مشقت اور حرج ہے۔ختم شد] اور ایسا ہی ہے کتاب ’’شرح منتھی الإرادات في الفقہ الحنبلي‘‘ میں وفي سبل السلام: ’’أخرج الطبراني في الأوسط بإسناد حسن عن ابن عباس بلفظ: لا نکاح إلا بولي مرشد أو سلطان‘‘[2] انتھی [اور سبل السلام میں ہے کہ طبرانی نے اوسط میں ابن عباس کے واسطے سے حسن سند کے ساتھ تخریج کی ہے کہ نکاح بغیر ولی مرشد یا سلطان کے درست نہیں ہے ۔ختم شد] اور ’’تلخیص الحبیر‘‘ میں ہے: ’’حدیث ابن عباس ’’لا نکاح إلا بولي مرشد وشاھدي عدل‘‘ أخرجہ الشافعي والبیھقي من طریق ابن خثیم عن سعید بن جبیر عنہ موقوفا، وقال البیھقي بعد أن رواہ من طریق آخر عن ابن خثیم بسندہ مرفوعا بلفظ: لا نکاح إلا بإذن ولي مرشد وسلطان۔ قال: المحفوظ الموقوف، ثم رواہ من طریق الثوري عن ابن خثیم بہ، ومن طریق ابن الفضل عن ابن خثیم بسندہ مرفوعا بلفظ: لا نکاح إلا بولي وشاھدي عدل، فإن أنکحھا
Flag Counter