Maktaba Wahhabi

209 - 702
’’أخبرنا مسلم بن خالد و سعید عن عبد اللّٰه بن عثمان بن خثیم عن سعید بن جبیر و مجاھد عن ابن عباس رضی اللّٰه عنہ قال: لا نکاح إلا بشاھدي عدل و ولي مرشد‘‘[1] انتھی [ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ کوئی نکاح نہیں ہے مگر دو عادل گواہوں اور ایک ولی مرشد کے ساتھ۔ ختم شد] اور ’’مغنی المحتاج شرح المنہاج‘‘ للشیخ الخطیب الشربینی الشافعي میں ہے: ’’ولا ولایۃ لفاسق علی المذھب، بل تنتقل الولایۃ للأبعد، لحدیث ((لا نکاح إلا بولي مرشد )) رواہ الشافعي في مسندہ بسند صحیح، وقال الإمام أحمد: إنہ أصح شيء في الباب، و نقل عن الشافعي في البویطي أنہ قال: المراد بالمرشد في الحدیث العدل‘‘[2] انتھی [راجح مذہب کے مطابق کسی فاسق کو ولایت کا حق حاصل نہیں ہے، بلکہ ایسی صورت میں ولایت دور کے رشتے دار کو منتقل ہوجائے گی۔ اس حدیث کی بنیاد پر کہ ولی مرشد (نیک ولی) کے بغیر نکاح درست نہیں ہے۔ اس کی روایت شافعی نے اپنی مسند میں سند صحیح سے کی ہے۔ امام احمد نے کہا ہے کہ اس باب میں یہ سب سے صحیح چیز ہے۔ بویطی میں شافعی کے واسطے سے منقول ہے کہ انھوں نے کہا کہ مرشد سے مراد حدیث میں عدل ہے۔ ختم شد] اور کتاب ’’کشاف القناع شرح الإقناع‘‘ للشیخ منصور بن إدریس الحنبلي میں ہے: ’’ویشترط في الولي سبعۃ شروط: أحدھا: حریتہ، والثاني: ذکوریتہ، والثالث: اتفاق دین، والرابع: بلوغ، والخامس: عقل، والسادس: عدالۃ، لما روي عن ابن عباس: لا نکاح إلا بشاھدي عدل وولي مرشد۔ قال أحمد: أصح شيء في ھذا قول ابن عباس، و روي عنہ مرفوعا: (( لا نکاح إلا بولي وشاھدَي عدل، وأیما امرأۃ أنکحھا ولي مسخوط علیہ فنکاحھا باطل )) ولأنھا ولایۃ نظریۃ فلا یستبد بھا الفاسق، ولو کان الولي عدلا وظاھرا فیکفي مستور الحال، لأن اشتراط العدالۃ ظاھراً
Flag Counter