کیا جائے گا۔ چنانچہ قفال نے اپنی تفسیر میں بعض فقہا کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ان لوگوں نے جائز قرار دیا ہے کہ صدقات کے مصارف تمام خیر کے کام ہیں ، جیسے مردے کی تکفین، قلعوں کی تعمیر اور مساجد کی تعمیر۔ کیونکہ اللہ کا قول {فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ} ہر ایک کو عام ہے ]
اور تفسیر خازن میں ہے:
’’و في سبیل اللّٰه : یعني و في النفقۃ في سبیل اللّٰه ، وأراد بہ الغزاۃ، فلھم سھم من مال الصدقات، فیعطون إذا أرادوا الخروج إلی الغزو، وما یستعینون بہ علی أمر الجھاد من النفقۃ و الکسوۃ والسلاح والمؤنۃ فیعطون وإن کانوا أغنیاء، لما تقدم من حدیث عطاء و أبي سعید الخدري، ولا یعطی من سھم سبیل اللّٰه لمن أراد الحج عند أکثر أھل العلم، وقال قوم: یجوز أن یصرف سہم سبیل اللّٰه إلی الحج، یروی ذلک عن ابن عباس، وھو قول الحسن، وإلیہ ذھب أحمد بن حنبل و إسحاق بن راھویہ، و قال بعضھم: إن اللفظ عام، فلا یجوز قصرہ علی الغزاۃ فقط، ولھذا أجاز بعض الفقھاء صرف سھم سبیل اللّٰه إلی جمیع وجوہ الخیر من تکفین الموتٰی و بناء الجسور و الحصون و عمارۃ المساجد وغیر ذلک، قال: لأن قولہ: {فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ} عام في الکل، فلا یختص بصنف دون غیرہ‘‘[1]
[فی سبیل کا مطلب اللہ کے راستے میں خرچ کرنا ہے اور اس سے مراد غزاۃ ہیں جن کا حصہ صدقات کے مال میں سے ہے۔ اگر وہ غزوات میں جانے کا ارادہ کریں گے تو ان کو دیا جائے گا اور اس سلسلے کے جو بھی اخراجات ہوں گے نفقہ، کپڑا، اسلحہ اور سامان وغیرہ، سب کچھ دیا جائے گا، گرچہ وہ اغنیا ہوں ، جیسا کہ عطا اور ابو سعید خدری کی حدیث میں گزرا۔ اکثر اہل علم کے نزدیک فی سبیل اللہ کی مدد سے حج کے لیے جانے والوں کو نہیں دیا جائے گا۔ کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ حج پر جانے والے کو سبیل اللہ کے مد سے دینا جائز ہے۔ اس کی روایت ابن عباس کے واسطے سے کی جاتی ہے اور یہی حسن کا قول ہے
|