Maktaba Wahhabi

187 - 702
اور اسی جانب احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ لفظ عام ہے، اس لیے اس کو صرف غزات پر محدود کرنا جائز نہیں ہے۔ اس لیے بعض فقہا نے اجازت دی ہے کہ سبیل اللہ کا حصہ تمام خیر کے کاموں کے لیے ہے۔ اس میں مردے کی تکفین، پلوں کی تعمیر، قلعوں کی تعمیر، مساجد وغیرہ کی تعمیر شامل ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا قول {وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ} ہر ایک کے لیے عام ہے۔ اس لیے کسی خاص صنف کے لیے اسے مختص نہیں کیا جائے گا] اور بعض فقہا نے بھی {فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ} کو عام رکھا ہے۔ ’’البحر الرائق شرح کنز الدقائق‘‘ میں ہے: ’’قولہ: و منقطع الغزاۃ۔ ھو المراد بقولہ تعالی: {وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ} و ھو اختیار منہ لقول أبي یوسف، وعند محمد: منقطع الحاج، وقیل: طلبۃ العلم، واقتصر علیہ في الفتاویٰ الظھیریۃ، وفسرہ في البدائع بجمیع القرب، فیدخل فیہ کل من سعی في طاعۃ اللّٰه تعالی و سبیل الخیرات إذا کان محتاجا‘‘[1] [مجاہدین ہی اللہ تعالیٰ کے قول {وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ} سے مراد ہیں ۔ ابو یوسف کے قول کے مطابق یہی مختار ہے اور امام محمد کے نزدیک حج کرنے والے بھی اسی زمرے میں آتے ہیں ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ طلبہ بھی مرادہیں ، جیسا کہ فتاویٰ ظہیریہ میں اسی پر اقتصار کیا گیا ہے۔ بدائع میں اس کی تفسیر کی گئی ہے کہ تمام تقرب الٰہی کے کام (فی سبیل اللہ میں داخل ہیں ) اس طور سے اس میں ہر وہ سعی کرنے والا داخل ہوجائے گا، جو اللہ تعالیٰ کی طاعت کے لیے ہو اور خیر کے راستے میں ہو اگر وہ محتاج ہے] اور تفسیر آلوسی میں ہے: ’’وفي سبیل اللّٰه : أرید بذلک عند أبي یوسف: منقطعوا الغزاۃ، و عند محمد: منقطعوا الحجیج، وقیل: المراد طلبۃ العلم، واقتصر علیہ في الفتاوی الظھیریۃ، و فسرہ في البدائع بجمیع القرب، فیدخل فیہ کل
Flag Counter