[غرم جو انسان کے مال میں بغیر کسی جرم کے آفت آتی ہے اور غریم وہ شخص ہے جس نے قرض دیا ہو اور جس کے اوپر قرض ہو، جیسا کہ فرمایا: غارمین اور فی سبیل اللہ۔ ختم شد]
اور ’’بنایہ شرح ہدایہ‘‘ میں ہے:
’’الغرم ھو من الخسران، وکان الغارم ھو الذي خسر مالہ، والخسران النقصان، و قال أبو جعفر البغدادي: الغارم من لزمہ دین، وإن کان في یدہ مال، ولکنہ لا یکفي لأداء الدین، فصارکمن لا مال لہ‘‘[1] انتھی
[غرم خسران میں سے ہے اور غارم وہ شخص ہے جس کا مال خسارے میں ہو اور خسران نقصان کو کہتے ہیں ۔ ابوجعفر بغدادی نے کہا ہے کہ غارم وہ ہے جس کے اوپر قرض ہے، اگرچہ اس کے پاس مال ہو، لیکن وہ مال قرض ادا کرنے کے لیے ناکافی ہو، تو یہ شخص ایسے ہے جیسے اس کے پاس مال نہیں ہے]
پس حدیث سہل بن ابی حثمہ کو تحت الغارمین داخل کرنے اور فی سبیل اللہ سے خارج کرنے پر کوئی دلیل قوی قائم نہیں ہے سوائے احتمال اور ظن کے، جیسا کہ خطابی نے بلفظ ’’یشبہ‘‘ ذکر کیاہے۔ بلکہ ظاہر حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ داخل تحت فی سبیل اللہ ہے، کیونکہ صلح بین الطائفتین اور تسکین فتنہ رفع القتال اعظم امور خیر میں ہے۔ پس فی سبیل اللہ میں اس کو نہیں داخل کرنے کی دلیل قوی چاہیے۔ اس لیے بعض ائمہ نے ’’سبیل اللہ‘‘ کو عموم پر رکھا ہے اور سارے امور خیر کو اس میں داخل کیا ہے اور شرط تملیک کو باطل کیا ہے۔
تفسیر کبیر میں ہے :
’’وعلم أن ظاھر اللفظ في قولہ {وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ} لا یوجب القصر علی کل الغزاۃ، فلھذا المعنی نقل القفال في تفسیرہ عن بعض الفقھاء أنھم أجازوا صرف الصدقات إلی جمیع وجوہ الخیر من تکفین الموتیٰ وبناء الحصون و عمارۃ المساجد، لأن قولہ {فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ} لعام في الکل‘‘[2]
[معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا قول {فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ} کا ظاہری لفظ صرف غزات پر ہی محمول نہیں
|