ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو صرف اس بنا پر غارمین کے حصے میں سے دیا ہوگا کہ اسے اصلاح ذات البین پر محمول کیا ہوگا، کیونکہ انصاری اور اہل خیبر کے درمیان، اس مقتول کے سلسلے میں جو وہاں پایا گیا تھا، نزاع پیدا ہوگیا تھا، کیونکہ دیتوں (خون بہا) کے لیے صدقات کا مال صرف نہیں کیا جاتا]
اور ائمہ احناف اس کو ’’غارمین‘‘ میں داخل نہیں کرتے ہیں ، کیونکہ ان کے نزدیک ’’غارم‘‘ کی وہ تعریف ہے جو ہدایہ میں ہے :
’’والغارم من لزمہ دین، ولا یملک نصابا فاضلا عن دینہ، وقال الشافعي: من تحمل غرامۃ في إصلاح ذات البین وإطفاء الثائرۃ بین القبیلتین‘‘[1]انتھی
[اور غارم وہ شخص ہے جس کے اوپر قرض ہو اور اپنے قرض سے زیادہ فاضل نصاب کا مالک نہ ہو۔ شافعی نے کہا ہے کہ غارم وہ ہے کہ جو شخص آپسی نزاع کے اصلاح کرانے میں قرض دار ہوگیا یا دو قبیلوں کے درمیان جھگڑا ختم کروانے کے لیے قرض دار ہوگیا۔ ختم شد]
اور زہری، مجاہد و غیر ہما بھی اس کی تعریف میں متفق ہیں احناف کے ساتھ۔ ’’درمنثور‘‘ میں ہے:
’’عن الزھری أنہ سئل عن الغارمین، قال: أصحاب الدین، وابن السبیل، و إن کان غنیا۔ وقال مجاھد: من احترق بیتہ، و ذھب السیل بمالہ، وادان علی عیالہ‘‘[2] انتھی
[زہری سے روایت ہے کہ ان سے غارمین کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا: قرض دار لوگ اور مسافر اگرچہ غنی ہو۔ مجاہد نے کہا کہ جس کا گھر جل کر تباہ ہوگیا اور سیلاب کے سبب مال و اسباب سب ختم ہوگیا اور اس نے اپنے عیال کے لیے قرض لیا]
اور لغت میں ’’غریم‘‘ قرض دار کو کہتے ہیں ۔ مفردات القرآن میں ہے:
’’الغرم ما ینوب الإنسان في مالہ من ضرر لغیر جنایۃ منہ، یقال: غرم کذا غرماً و مغرماً۔ و الغریم یقال لمن لہ الدین، ولمن علیہ الدین، قال تعالیٰ: و الغارمین و في سبیل اللّٰه ‘‘[3] انتھی
|