یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واسطے رفع فتنہ و اصلاح بین الناس کے سہل بن ابی حثمہ انصاری کو سو اونٹ زکوۃ مفروضہ میں سے دے دیا۔ پس اب مصارف ثمانیہ مذکورہ فی القرآن میں سے کس مصرف میں یہ داخل کیا جائے گا؟ پس امام مالک و شافعی اور ایک جماعت اس کو ’’غارمین‘‘ میں داخل کرتے ہیں ، کیونکہ یہ لوگ ’’غارم‘‘ کی تعریف یہ کرتے ہیں کہ:
’’ھو مدین مثل من استدان لیصلح بین الطائفتین في دیۃ أو دین تسکینا للفتنۃ، وإن کان غنیا‘‘ ذکرہ الزرقاني۔[1]
[وہ قرض دار ہے، جس نے قرض اس لیے لیا کہ دیت اور قرض کے معاملے میں دو گروہوں کے درمیان مصالحت کرائے یا فتنے کو رفع کرے، گرچہ وہ غنی ہو۔ اس کا ذکر زرقانی نے کیا ہے]
اور کہا خطابی نے ’’شرح السنن‘‘ میں :
’’الغارم الغني فھو الرجل یتحمل الحمالۃ، ویدَّان في المعروف و إصلاح ذات البین، و لہ مال إن بیع فیھا افتقر، فیعطی من الصدقۃ ما یقضی بہ دینہ، فأما الغارم الذي یدان لنفسہ وھو معسر فلا یدخل في ھذ المعنی، لأنہ من جملۃ الفقراء أیضا ‘‘
قال الخطابي: ’’یشبہ أن یکون النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم إنما أعطاہ ذلک من سھم الغارمین علی معنی الحمالۃ في إصلاح ذات البین، لأنہ قد شجر بین الأنصاري وبین أھل خیبر في دم القتیل الذي وجد بھا منھم، فإنہ لا مصرف بمال الصدقات في الدیات‘‘[2]
[غارم غنی وہ شخص ہے جو تاوان کا متحمل ہو اور اصلاح بین الناس جیسے معروف کام کے لیے قرض لیتا ہو اور اس کے پاس اتنا ہی مال ہو کہ اگر اس نے اپنے پاس سے دیا تو وہ فقر میں مبتلا ہوجائے گا تو صدقے کے مال سے اس کو اتنا دیا جائے گا جو اس کے قرض کے لیے کافی ہو۔ رہا وہ غارم (مقروض) جو اپنے لیے قرض لیتا ہے اور وہ تنگ دست ہے تو یہ غنی کے حکم میں داخل نہیں ہوگا، کیونکہ وہ عام فقرا کی طرح ہے۔ خطابی نے کہا کہ ممکن
|